لوک کہانیوں کی ایک اپنی چاشنی اور خوبصورتی ہے.مجهے زاتی
طور پر "سسی پنوں" کی کہانی بہت پسند ہے. سسی شہر بهمبهور کے ہندو راجہ کی
بیٹی تھی مگر اس کے توہم پرست جوتشیوں نے اس بچی کو اس کے تاج اور تخت کے
لئے منحوس قرار دیا. راجہ کے حکم پر اس کو لکڑی کے ڈبے میں ڈال کر سندھو
دریا میں ڈال دیا. بچی کا صندوق بہتے بہتے دھوبیوں کے ہتهے لگ گیا. ایک بے
اولاد دھوبی جوڑے نے سسی کو گود لے لیا. سسی اپنے حسن میں یکتا تھی. آہستہ
آہستہ سسی کے حسن کے چرچے ہر جگہ پھیل گئے. کیچ مکران کا میر پنوں بھی یہ
چرچے سن کر بهمبهور پہنچ گیا. کپڑے دهلوانے کے بہانے سسی کے گھر اس کے والد
کے پاس پہنچ گیا. جب اس نے پہلی نظر سسی پر ڈالی تو اپنا دل اس ملکہ حسن کے
قدموں میں ہار گیا. سسی بھی اس کے پیار میں اپنا دل ہار گئی. سسی کا والد
اس کی شادی دھوبی برادری میں ہی کرنا چاہتا تھا. پنوں نے اپنے آپ کو دھوبی
ظاہر کرکے سسی کا ہاتھ مانگا. سسی کے باپ نے پنوں سے کہا کہ وہ کپڑے دھو کر
اس کو یہ بات ثابت کرئے کہ وہ واقعی دھوبی ہے.کہاں نازوں کا پلا پنوں اور
کہاں کپڑوں کی دهلائی کا کام. اس نے جیسے تیسے کپڑے دھوئے مگر وہ جانتا تھا
کہ یہ کپڑے کسی کو بھی دهلے ہوئے نہیں لگیں گے. اس مسئلے کا حل اس نے اس
طرح نکالا کہ ہر کپڑے کی جیب میں ایک ایک سونے کا سکہ ڈال دیا. جو کپڑا
لیتا جاتا پنوں کی تعریف کے قلابے ملاتا جاتا. آخر کار سسی کا باپ رشتے کے
لئے مان ہی گیا.
ادھر سے پنوں کے بهائی اس کی تلاش کرتے کرتے بهمبهور پہنچ گئے. انهوں نے
پنوں کو ساتھ لے جانے کی کوشش کی مگر وہ عاشق دیوانہ ان کے ساتھ جانے کو
راضی نہیں ہوا.اب انهوں نے مکروفریب کا جال بچھایا اور اس کو کہا کہ وہ اس
کی شادی کرنے کو تیار ہیں.
آخر کار مرادوں کی گهڑی آپہنچی. سسی اور پنوں رشتہ ازدواج میں بنده گئے.
شادی کی تقریب میں سسی اور پنوں کو جو مشروب پلایا گیا وہ نشہ آور تھا. اس
کو پی کر دونوں بے ہوش ہوگئے. پنوں کے بهائی اس کو ڈاچی پر باندھ کر ڈال کر
بهاگ گئے.
جب سسی کی آنکھ کھلی تو وہ ویرانے میں اکیلی پڑهی تھی. وہ دکھیاری پنوں
پنوں پکارتی ،اپنے پیار کی تلاش میں چل پڑی. راستے میں اس کا گذر ایک
ریگستان سے ہوا اس کے پاوں لہولہان ہوچکے تھے، گلے میں پیاس سے کانٹے پڑه
چکے تھے. اس حال میں اس کو ایک چرواہا ملا ،سسی نے اس سے پانی مانگا.
چرواہے نے جب اس روپ کی شہزادی کو دیکھا تو اس کے اندر کا جانور بیدار
ہوگیا اس نے سسی کی طرف بری نیت سے ہاتھ بڑھایا کہتے ہیں کہ سسی نے اس وقت
اپنی عزت بچ جانے کی اللہ سے فریاد کی کہتے ہیں کہ زمین شق ہوئی اور سسی اس
میں دفن ہوگئی. صرف اس کے دوپٹے کا ایک حصہ باہر رہ گیا.
ادھر پنوں کو ہوش آیا تو اس کے بهائی اس کو لے کر کیچ مکران کی طرف بهاگے
جارہے تھے. آخرکار اس کو بهاگنے کا موقع مل ہی گیا. وه سسی سسی پکارتا آخر
کار اس ریگستان میں پہنچ گیا. وہاں اس کو سسی کا دوپٹہ زمین میں نظر آیا
اور وہ چرواہا بھی جو زمین کھودنے میں مصروف تھا. پنوں کے استفسار پر
چرواہے نے اس کو سارا ماجرا سنایا کہتے ہیں کہ پنوں نے بھی دعا میں ہاتھ
بلند کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے زمین اس کو بھی نگل گئی. یوں جو پیار کرنے
والے زندگی میں نہ مل سکے وہ مر کر امر ہوگئے.
اسی چرواہے نے پتھر رکھ کر ان کی قبر کی نشاندہی کی. روایت ہے کہ سندھ میں
محبت کرنے والے اب بھی ان کے مرقد پر حاضری دے کر اپنی محبت کے امر ہونے کی
دعا کرتے ہیں.
سندھی لوک صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بهٹائی نے یہ قصہ بہت خوبصورتی سے شاعری
کی زبان میں بیان کیا ہے
پنوں کو پانے کے لئے روتی، بھٹكتي سسي سے شاہ صاحب کہتے ہیں -
هوت تهجے هج میں، پچھي كوه پهي؟
وفي انفسكم، افلاتبسرون، سوجھے كر صحیح
كڈه کان وہی، هوت گول ہٹ تے.
اردو ترجمہ:
محبوب تیرے پہلو میں ہیں،
تیرے اندر ہیں،
اور تو ان کا راستہ پوچھتی ہے!
ان کی علامتیں تو تجھ میں ہی سمائی ہیں.
ذرا اپنے دل میں تو جھانک!
دیوانی! بھلا اپنے عزیز کو تلاش کرنے کوئی هاٹ جاتا ہے کیا؟
- پانچویں داستان، سر سسي ابري، شاہ جو رسال
سندھی صوفی شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی (1689-1752)
|