حوا کی بیٹی روزِ اول سے مظالم کی انتہا برداشت کر کے
ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتی آئی ہے۔سخت سے سخت حالات میں اس نے صبر کا دامن
ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اپنی ذات پر کچوکے سہتی رہی مگر معاشرے میں اپنا اچھا
مقام بنائے رکھا، مگر آج کے وقت اور حالات نے ایسا رُخ کیوں بدلا ہے کہ
عورت ذات کی تذلیل ہمیں دورِ جہالت کی یاد دلاتی ہے ، جب خواتین کو کوئی
حقوق حاصل نہ تھے۔اور آج جب انھیں حقوق حاصل ہیں تو ان کی پامالی بھی وہی
کر رہی ہیں۔ عورت کو تو تمام حقوق اسلام کی آمد پر ہی دے دیئے گئے تھے۔ تو
اب یہ کون سے حقوق ہیں جن کے حصول کے لیے عورت یہ کہنے پر مجبور ہے "میرا
جسم ، میری مرضی''۔
ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری آنے والی نسل کا رجحان کس طرف جا رہا
ہے۔ ہم آزادی ء سوچ کے نام پر بے باکی اور فحاشی کوفروغ کیوں دے رہے ہیں؟
اس طرح کے نعروں کا اعلان اور حمایت ،ہماری نئی نسل پر کیا اثرات مرتب کرے
گا؟ یہ سب ہماری دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔ ہم اپنے اعتقاد کے معاملے میں
اتنے ناپختہ ہیں کہ کوئی بھی مضبوط دلیل اور ٹھوس ثبوت کے ساتھ بات کرنے کی
بجائے ہوائی قلعے تعمیر کرتے رہتے ہیں۔ اپنے گریباں میں جھانکنے کی بجائے
دوسروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔خواتین کو جدوجہد ِ عملی کی اجازت تو
دی گئی ہے مگر اسلام نے اس میں کچھ حد بندی بھی قائم کی ہے۔ عورت کو اس بات
کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی کہ وہ حقوقِ نسواں کے مطالبے کی آڑ میں بے ہودہ
نعروں کی پیروی کرے۔ عورت کو چاہیے کہ بطور فرد، وہ اپنی حیثیت پہچانے اور
معاشرے میں اپنا مقام بنانے کے لیےایسی تحریکوں میں حصہ نہ لے جو ان کی جگ
ہنسائی اور ان پر تنقید کا موجب بنیں۔ بلکہ اپنے انسان ہونے کے علاوہ
مسلمان عورت ہونے کی طرف بھی توجہ دیں۔ |