دوستو! آج میرا قلم کبھی رکتا ہے اور کبھی چلتا ہے لکھوں
توکیا لکھوں! یوم پاکستان کے حوالے سے لکھ رہا ہوں ، سمجھ سے بالا تر ہے،
کیونکہ پاکستان کا قائم ہونا۔ آزاد مملک بننا، مسلمانوں کا ہجرت کرے
پاکستان آنا، پاکستان کے لیے اپنا من دھن قربان کرنے والے آج بھی انصاف کے
لیے پریشان کیوں! آزادی جیسی نعمت کی بے قدری، بھارت مسلمانوں پر بربریت کی
داستانیں، تحریک پاکستان سے لے کر قرار داد پاکستان کے منظور ہونے تک،
1940ء سے لے کر 1947ء تک حقیقی معنوں میں قوم نظر آنے والی آج قوم نظر کیوں
نہیں آتی، دورانِ ہجرت دالخراش واقعات روح کو تڑپاتے ہیں۔ لیکن جب تک ہم
اپنے ماضی کو یاد نہیں رکھیں تو اپنی اچھی سوچ اور منزل کی طرف گامزن نہیں
ہو سکیں۔ ان واقعات کا ذکر کرنے مقصد یہ قطعاً نہیں کہ آپ کو اداس کیا جائے
بلکہ صرف باوور کروانا مقصود ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے کس طرح اس نعمت کو
پانے کے لیے ہجرت کی اور ان کے ساتھ کیا بیتی۔ کسی کی دل آزاری ہو تو پیشگی
معذرت چاہتاہوں۔ ’’میں ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے مسلمان
مردوں ، عورتوں اور بچوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اس ظلم و بربریت
کی داستانیں قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں محفوظ ہیں۔
پاکستان کے اعلان کے فوراً بعد مسلم فساد پھوٹ پڑے، انسانی اور اخلاقی
قدریں ماضی کا قصہ بن گئیں۔ سالہاسال سے اکٹھے رہنے والے ایک دوسرے کے خون
کے پیاسے ہو گئے۔ کہتا ہے کہ ان حالات میں میرے والد نے گاؤں کے دوسرے
لوگوں سے مشورے کے بعد پاکستان کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا ، لیکن ہندووں
اورسکھوں کو یہ بات بھی گوارانہ تھی، اور عین ہماری روانگی کے وقت آس پاس
کے گاؤں سے مسلح جتھے وہان پہنچ گئے اور چشم زدن میں تمام مردوں کو تہِ تیغ
کر دیا، نوجوان لڑکیوں کو ان کی مان کے سامنے اجتماعی ہوس کا نشانہ بنایا
گیا ، آج بھی جب میں اس منظر کا سوچتا ہو ں تو یقین نہیں آتا کہ ابن آدم
ذلت کی ان گہرائیوں تک بھی جا سکتی ہے۔ میرا معصوم بھائی باقی بچوں کی طرح
ڈرا سا کھڑا تھا ۔جب اس نے چند حیوانوں کو میری طرف بڑھتے دیکھا جن پر منت
سماجت کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا تو بھاگ کر میرے سامنے آگیا اور مجھے
اپنی پناہ میں لے لیا۔ تبھی ایک ہندونے اپنی کلہاڑی کا زوردار وار اس معصوم
کی گردن پر کیا جس سے اس کا سرتن سے جدا ہو کر دور جا گرا۔ پھر اس نے میرے
ساتھ کیا یہ بیان کرنے کے قابل نہیں نہ زمین پھٹی اور نہ ہی آسمان پھٹا۔
تمام بوڑھی عورتوں کو قتل کرنے کے بعد سب لڑکیوں کو وہ ایک حویلی میں لے
گئے، وہاں کیا ہوا ایک لمبی داستا نِ غم ہے، میں ان بچ جانے والی خوش نصیب
یا بد نصیبوں میں شامل تھی، میں ایک کے بعد دوسرے کے ہاتھوں تک پہنچتی رہی،
آخر سوہن سنگھ نے مجھے اپنے گھر ڈال لیا اور شادی بھی کر لی۔ سات سال کے
بعد سوہن سنگھ مر گیا تو اس کے چھوٹے بھائی مہندر نے مجھ سے شادی کر
لی(بحوالہ 1947ء کے مظالم کی کہانی خود مظلوموں کی زبانی )۔اس کی زبانی اور
اورداستانِ غم، میں ضلع ہوشیار پور سے ہوں ، ہوشیار کی وہ رات بے حد طویل
تھی ، چوک سرجاں پر حملے کی دوسری رات۔۔ حملہ آوروں کی تعداد اضافہ ہو
رہاتھا،پہلے روز پچاس نوجوان شہید ہوئے۔ دوسرے روز ساٹھ، شام ہونے سے پہلے
دو چار ایسے دلدوز واقعات ہوئے کہ مسلمانوں کی عزیمت اور جوش میں زبردست
اضافہ ہوا۔ بزرگ اور نوعمر بھی میدان میں اترنے لگے، عصر کے وقت دست بدست
لڑائی ہو رہی تھی۔ ایک مسلمان نوجوان گرا، خون کے فوارے نکل رہے تھے۔ اس
نوجوان کا گھر لڑائی کے میدان کے بالکل سامنے تھا۔ گھر کا ایک چھوٹا بچہ یہ
منظر دیکھ رہا تھا ۔ خواتین کو ہوش نہ رہا اور بچہ ابا ابا کہتے ہوئے
دروازے سے نکل کر ہندوں اور سکھوں کی طرف بھاگا ۔ سکھوں نے بچے کو پکڑلیا
اور چلا چلا کر اعلان کیا دیکھو! ہم آج مسلے کے بچے کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔
مسلمان دم بخود تھے کہ یہ بچہ وہاں کیسے پہنچ گیا ، سکھوں نے بچوں کو اوپر
اچھالا اور نیچے سے نیزے پر اسے لے لیا ، بچے کی چیخ اس قدر لدوز تھی کہ
آسمان تک لرز اٹھا ۔ اس نے تڑپ تڑپ کر وہیں جان دے دی (اردو ڈائجسٹ
2016)۔بھارت سے پاکستان کانوائے کے ساتھ آنے والے نوجوان کا آنکھوں دیکھا
حال ، ’’راستے میں اِکا دُکا مسلمان عورتیں ملتی گئیں ، انہیں بھی ساتھ
لیتے آئے، سکھوں اور ہندؤوں نے اپنی درندگی کی جی بھر کر مظاہر ہ کیا تھا،
ہوشیار پور سے نکلتے وقت ایک عورت زخمی حالت میں پڑی ملی، والد صاحب نے
اٹھایا تو اس کی ٹانگیں اور سینہ کٹے ہوئے تھے۔ ایک مشہور خاندا ن کی
نوجوان خاتون تھی۔ اجا جی کو معلوم ہوا تو ضبط نہ کر سکے اس خاتون نے صرف
اتنا کہا آپ جائے چاچا جی ، غم نہ کریں !۔ اتناسب کچھ ہو جانے پر پاکستان
تو بن گیا ، مجھے خوشی ہے میں امت کے کسی کام تو آئی۔۔ نہر عبور کرکے ہم سب
شدت تاثر سے کانپ رہے تھے کہ ایک طرف سے کراہنے کی آواز آئی ۔ ایک بزرگ
ڈاکٹر نصیر الدین آگے بڑھے ، انہوں نے پوچھا کون ہے؟ نسوانی آواز آئی۔ وہ
فوراً لپکے ۔ ایک خاتون خون میں لت پت پڑی تھی ۔ پانی پلاکر مرہم پٹی کرنے
کی کوشش کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اس خاتون نے مرتے وقت صرف اتنا کہا کہ
شام چوراسی کی جنگ میں میرے والد اور سات بھائی، چچا اور ان کے چار لڑکے
شہید ہو گئے ۔ تین بہنیں لڑتے لڑتے اور اپنی عزت بچاتے ہوئے نہر میں ڈوب
گئیں۔ والدہ کو انہوں نے قتل کر دیا۔ میں چھپ گئی ، انہوں نے مجھے
ڈھونڈنکالا جب قریب آئے تو میں نے چھرے اور ٹوکے سے دو کو زخمی کر دیا۔
انہوں نے میرا یہ حشر کیا ہے۔ آخری سانس لینے سے پہلے اس مظلوم خاتون نے
کہا پاکستان کو میرا سلام پہنچا دیجئے ۔۔۔ایک اور واقع’’مجھے یاد ہے کہ ایک
خاتون آخری دموں پر تھی، اس سے معلوم ہوا کہ ہم لوگ کانوائے پر پاکستان جا
رہے ہیں، تو اس نے باباجی کو بلا کر کہا ، یہ میرے زیورات ہیں ۔ خاندان کے
سارے مرد شہید ہو چکے ہیں، ان زیورات کو قائد اعظم تک پہنچا دیں، شاید
پاکستان کے کام آجائیں۔ (بحوالہ اردو ڈائجسٹ اگست2016)۔گنڈا سنگھ والا
ریلوے اسٹیشن کا اسسٹنٹ ریلوے ماسٹر خود بیان کرتا ہے کہ ایک مہاجر ٹرین
فیروز پور کی طرف سے قصور آرہی تھی ۔ کنڈا سنگھ والا اسٹیشن پہنچ کر رکی،
مجید یزدانی صاحب پلیٹ فارم پر اس کا استقبال کر رہے تھے ۔ گاڑی رکی تو
انہوں نے دیکھا کہ سب بوگیاں خون سے لت پت ہیں ، اور ڈبوں میں لاشوں کے
انبار لگے ہیں۔ یہ منظر اس زمانے کا معمول تھا۔ پھر سب بوگیوں کو جھانکتے
ہوئے جب وہ آخری بوگی کی قریب پہنچے تو وہان بچوں کے رونے اور کراہنے کی
درد ناک آواز وں نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔ جھانک کر دیکھا تو ایک روح
فرسا منظر ان کے سامنے تھا۔ اس بوگی میں ایک سال سے پانچ سال تک کی عمر کے
بے شمار بچوں کی زندہ لاشیں خون میں لت پت کلبلا رہی تھیں۔ ان بچوں کو ذبح
نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر زندہ لاشوں کی صورت میں
پاکستان کی طرف دھکیل دیا گیا ۔بحوالہ جدو جہد آزادی میں پنجاب کا کردار)۔
آج کا کالم یا اداریہ پڑھنے والوں اور بھی بے شمار دلخراش اور روح کو تڑپا
دینے والاواقعات ہیں ۔ ان واقعا ت کو د ہرانا آپ کو اداس، پریشان یا آنکھوں
سے آنسو دیکھنا مقصد نہیں۔ ان واقعات کا مقصد یہ کہ خداراہ اس وطن عزیز
پاکستان اور آزادی جیسی نعمت کی ہمارے آباؤ اجداد نے کیا قیمت ادا کی؟ضرور
غور کریں، |