کاش کے ہم سوئی ہوئی قوم نہ ہوتے ۔

رات کے تقریباً گیارہ بجے میں نے ہوٹل میں گھستے ہی ویٹر کو اپنی جانب مخاطب کیا اور پوچھا یار وہ رحیم اللہ تمہارا دوست کہاں ہے دکھائی نہیں دے رہا ؟

اس نے اداس لہجے میں میری طرف دیکھا، اور بولا صاحب میں اس کے ماموں کا بیٹا ہوں، وہ کافی بیمار تھا اس لئے مالک نے اسکو اس کے گھر کوئٹہ بھجوادیا تھا اس کا تو آج ہی صبح انتقال ہوا ہے۔

میں نے حیرت سے پوچھا تو تم کیوں نہیں گئے اس نے پریشان لہجے میں کہاں مالک سے کہا تھا مگر مالک نے جانے نہیں دیا، آج عشاء کی نماز کے بعد اسے دفنایا ہے ، یہ سنتے ہی میری آنکھوں میں نمی آگئی اور مجھے اچانک ایک بات یاد آگئی جس کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں۔

اس کا نام رحیم اللہ تھا وہ انتہائی ذہین اور باتونی لڑکا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے اس سے شاید دوستی ہوگئی تھوڑی گپ شپ ہوجاتی اکثر کیونکہ وہ اخلاق کا بہت اچھا تھا،

ایک دن آج سے تین مہینے پہلے میں اور میرے ایک دوست باتوں میں مصروف تھے اتنے میں میرے دوست کو کسی کام سے گھر جانا پڑگیا میری نظر پڑی تو وہ ہوٹل سے دور کونے میں اداس کھڑا فون کان پر لگائے آنکھوں میں آنسو لئے کسی سے بات کر رہا تھا، بات ختم ہوئی تو میرے بلانے پر میرے پاس آیا بہت پوچھنے پر وہ بتانے لگا، میری عمر ۱۶ سال ہے دس سال کی عمر سے کراچی میں ہوں، اور جگہ جگہ کام کرتا رہا مگر پچھلے دو سال سے اس ہوٹل میں کام کررہا ہو میرے والد کی مالک سے بات ہے وہ میرے والد کو ایک سال کے ۱۰ ہزار کے حساب سے گیارہ مہینے کے دے دیتا ہے ہم ۱۲ لڑکے ہیں سب اسی طرح کام کرتے ہیں اور کوئٹہ سے ہی آئے ، میں بھی وہی کا ہوں سب کی عمر ۱۰ سے ۱۶ کے درمیان ہے، گھر میں میری تین بہنیں ہے جس سے ابھی بات کررہا تھا وہ سب سب سے چھوٹی ہے مجھے یاد کرتی ہے میں بھی جانا چاہتا ہو مگر جا نہیں سکتا، مالک سال کے گیارہ مہینے رمضان کے علاوہ ’’صبح دس سے رات دو بجے‘‘ تک کام کرواتا ہے ہمیں کہی بھی جانے کی اجازت نہیں ہوتی، مہینے میں ایک بار ۵ منٹ کے لئے کبھی گھر پر بات کروائی جاتی ہے ، سب ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں مالک روزانہ ہمیں بری طرح مارتا بھی ہے، اور کبھی کبھی ہمارے ساتھ وہ ۔۔۔۔۔ اور یہ سب بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آ نسو جاری تھے، اتنے میں اس کے مالک نے آواز دی اور وہ وہا سے چلا گیا۔ مجھے یقین ہے اللہ ہم سے قیامت کے دن ضرور پوچھے گا کیا کیا تھا جب یہ دیکھا تھا ؟ اب سوال جو اٹھتے ہیں وہ بہت اہم اور توجہ طلب ہیں، کیا کوئی ہے جو اس طرح کے سلوک سے ان بچوں کو آزادی دلائے ؟ اور یہ کس کا کام ہے ؟ کون ان تمام کا ذمےدار ہے اور کون ان مسائل کو حل کرسکتا ہے ؟ پورے سال کے لئے بچوں کو کرائے پر دینا کیا یہ ٹھیک ہے؟ چائلڈ لیبر پر کیا صرف باتو کی حد تک پابندی ہے کیا کبھی ہماری اسمبلی نے قانون بنانے کے بعد اس پر عمل کیا یا صرف باتیں ؟

اس ملک میں کون نہیں جانتا کے ان بچوں سے کتنی محنت لی جاتی ہے، اور مارا پیٹ بھی کی جاتی ہے کیا کسی کو کچھ نہیں پتہ ؟

آخر کب تک ہم سوئے رہے گے ؟ میری اللہ سے دعا ہے اللہ ہمیں جگادے کہیں یہ نہ ہو کے اللہ ہم سے ناراض ہوجائے ، کیونکے اللہ کا عذاب بھی ایسی قوموں پر ہی آتا ہے جو قوم سورہی ہوتی ہے اور جسے کوئی فکر نہیں ہوتی ،

سید ذیشان علی شاہ
About the Author: سید ذیشان علی شاہ Read More Articles by سید ذیشان علی شاہ: 25 Articles with 49279 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.