اگر کہا جائے کہ کوالیفائیڈ ڈسپنسر، میڈیکل ٹیکنیشنز ،
ایل ایچ ویز اور فارماسسٹ پریکٹس کرنے والے اطائی ہیں تو میرا سوال یہ ہے
کہ تمام سرکاری و نجی ہسپتالوں میں انجکشن لگانے سے لے کر ادویات دینے ،
سمجھانے اور ابتدائی طبی امداد تک کے کام ڈسپنسروں سے کیوں لئے جاتے ہیں ؟
چلیں ہم مان لیتے ہیں انہیں پریکٹس کی اجازت نہیں تو اس شعبے کو بند کیوں
نہیں کر دیا جاتا؟ کہ اس شعبے سے وابستہ نوے فیصد لوگ بے روزگار ہیں اور وہ
مجبور ہو جاتے ہیں اپنی روزی روٹی کیلئے کہ وہ پریکٹس کریں۔ ہمیں عملی
میدان میں رہتے ہوئے حقیقت کو بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ حکومت ملک بھر میں
جہاں تک صحت کی سہولت پہنچانے میں ناکام رہی ہے وہاں پر یہی لوگ سہولت
فراہم کر رہے ہیں ۔ اس سکے کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ اس وقت پورے ملک میں
جہاں مہنگائی کا جن بے قابو ہوا اور معیشت کا بیڑہ غرق کیا گیا وہیں ڈاکٹرز
حضرات نے اپنی فیسیں بھی بڑھا لیں ہیں ۔ ہسپتالوں کی حالت زار یہ ہے کہ عام
آدمی بھٹہ مزدور ہا کہیں نوکری کرنے والے بغیر چھٹی کئے ہسپتال کی سہولت سے
مستفید نہیں ہو سکتے یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں ایک فیصد یا شاید اس
سے بھی کم لوگ ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں جبکہ
باقی ننانوے فیصد لوگ انہیں ڈسپنسروں اور سرکاری ہسپتالوں پر انحصار کرتے
ہیں اس سے پہلے بھی حکومت کی جانب سے پالیسی اپنائی گئی جس میں میڈیکل
سٹوروں کے لائسنس معطل کرنے اور صرف فارمیسی بنانے کو فروغ دینے کی کوشش کی
گئی تھی لیکن اسے کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ کے احتجاج نے بحال کروا لیا اور ڈسپنسر
اس لئے پکڑے جا رہے ہیں اور اس پر کوئی بات کرنے والا نہیں کیونکہ انکی
کوئی تنظیم موجود نہیں ہے ۔پنجابی کہاوت ہے’’سنی نال سکی وی سڑ جاندی اے‘‘
کچھ ایسے ان پڑھ جو واقعی اطائی ہیں اور کسی چیز کا علم نہیں رکھتے کی وجہ
سے اہل لوگ بھی زیر عتاب آگئے ہیں ۔ لیکن اتنی زیادہ سختی کہ پرچے کاٹیں
جائیں اور 419,420.270.269 کی کاروائیاں کی جائیں کسی اور طرف سوچوں کا
محور مبذول کرواتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی ایک پروگرام شروع کیا گیا جس کی مد
میں بھاری جرمانا وصول کیا گیا اور ہیلتھ کئیر کمیشن بھی بھاری بھرکم
جرمانے وصول کر رہی ہے ان پر ریٹائرڈ بیوروکریٹ بٹھائے گئے ہیں جن کی
تنخواہیں پندرہ پندرہ لاکھ روپے ، تین تین گاڑیاں ، بنگلے اور دیگر تمام
مراعات کا دھیان رکھا گیا ہے جو کہ سب عوام کے پیٹ سے اور ان کے بچوں کے
منہ سے نوالہ چھین کر پورا کیا جا رہا ہے ۔اور موصول ہونے والے جرمانے کا
ابھی تک کچھ پتہ نہیں کہ وہ کونسے خفیہ اکاؤنٹ میں جمع ہو رہا ہے اس وقت
اطائیت کو ختم کرتے کرتے ، اور خراک کا نظام بہتر بناتے بناتے ادارے عوام
کی نظر میں اپنی ساکھ کھو رہے ہیں ۔میں نے دیکھا ہے کہ فوڈ اتھارٹی والے
گوالوں کو بیچ راستے روک لیتے ہیں اور ان کا دودھ گرا دیتے ہیں کیونکہ اس
میں پانی کی ملاوٹ ہوتی ہے جس کی وجہ سے دودھ کا فیٹ لیول انتہائی کم ہوتا
ہے لیکن میں پوچھتا ہوں کہ پاؤڈر دودھ اور ڈبے والے دودھ سمیت فروٹ کیکوں
پر لگی ہوئی کریموں کو کیسے لائسنس جاری کر دیا گیا جو واقعی مضر صحت ہے ،
اور فوڈ والوں نے ان کمپنیوں کو کیوں سیل نہیں کیا اور جیل میں بند نہیں
کیا ، صرف اس لئے کہ ان کے پا س انجمن تاجران کمیٹی ہے ؟ـ اسی طرح ایم بی
بی ایس جنرل فزیشن جو سرکاری ہسپتالو ں میں ملازمت بھی کرتے ہیں اور نجی
کلینکس بھی چلا رہے ہیں ، وہاں سرجری بھی کرتے ہیں ، لیبارٹریاں بھی بنواتے
ہیں ، فارمیسیاں بھی کھولتے ہیں وہ اطائی نہیں لیکن عوامی رابطہ میں رہنے
والے خدمت گزار ڈسپنسر اطائی بنائے گئے اور انہیں جیل میں پکڑ کر ان سے
بھاری جرمانا وصول کیا جا رہا ہے ۔ کیا سپریم کورٹ اور ہیلتھ کئیر کمیشن
والے اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ اگر ان ڈسپنسروں کے پاس اتنا پیسہ ہوتا
کہ وہ لاکھوں روپے جرمانہ بھر سکیں تو وہ ڈسپنسر بنتے؟ ایم بی بی ایس نا بن
جاتے؟ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان ڈسپنسروں کا رابطہ سیدھے عوام کے ساتھ ہوتا ہے
جس میں عقیدت مندی کا عنصر بھی کافی حد تک پایا جاتا ہے ، کئی جگہوں پر
جہاں لوگ ہسپتالوں میں جانے کی سکت ، ایم بی بی ایس کا چیک اپ کے اخراجات
برداشت نہیں کر سکتے ان کیلئے ڈسپنسر کسی مسیحا سے کم نہیں ، یہ بھی بجا ہے
کہ ڈسپنسر وں کو سرجری یا انجکشن وغیرہ نہیں لگانے چاہئیں اور میرے علم میں
جتنے ڈسپنسرز ہیں وہ ایسے کام سے اجتناب بھی کرتے ہیں لیکن سرکاری و نجی
ہسپتالوں میں یہی ڈسپنسر ہی زخموں پر ٹانکے لگانے اور ابتدائی طبی امداد
دینے کا کام کرتے ہیں ، ٹیکے وغیرہ بھی وہی لگاتے ہیں لیکن ایم بی بی ایس
کی پریسکرپشن کے بعد ۔ مگر اس کو کیٹیگرائز تو کیا جا سکتا ہے ، کہ ڈسپنسر
کم از کم جہاں موجود ہے وہاں طبی امداد دے جیسا کہ ایل ایچ وی مختلف علاقوں
میں سرکاری کام کرتی ہیں ، یا پھر حکومت محلہ سطح پر سرکاری ڈسپنسریاں
بنائے جہاں معقول پرچی فیس رکھ کر ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے ساتھ کچھ
ڈسپنسر کا عملہ تعینات کر کے افرادی کھپت بھی بڑھ جائے اور عوام الناس کو
بھی فائدہ ہو ۔ لیکن گورنمنٹ کی اس پالیسی سے نہ صرف ڈسپنسروں کو بالکل
عوام الناس کو بھی سرا سر نقصان ہی نقصان ہے ۔چھوٹے طبقے اور محلوں میں
ڈسپنسروں کو خدمت گزار کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن قانون نے انہیں اطائی
کہہ دیا ہے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور
خزانے پوری طرح خالی ہو چکے ہیں جبکہ ادارے جانتے ہیں کہ اشراف طبقے سے
ٹیکس وصول نہیں کر سکتے اور آئندے الیکشن کیلئے لوٹنے کیلئے اور بیچنے
کیلئے بھی کچھ نہیں بچا،محض خزانوں کو بھرنے کی خاطر ڈائریکٹ چھوٹے طبقوں
پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ بھاری بھرکم جرمانے وصول کر کے الیکشن پر پیسہ
لگایا جائے گا۔میری چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے حالیہ احکامات پر
نظر ثانی فرمائیں اور نااہل لوگوں کے عزائم کو ترویج دینے کی بجائے عوام
الناس اور چھوٹے طبقوں کو بھی سہولیات پوری طرح باہم پہنچائیں۔ گرفتار کر
کے اتنا جرمانہ وصول کرنا جو وہ نا دے پائیں کوئی اس مسئلے کا حل نہیں ہے
کہ وہ آج جرمانہ بھر کے کہیں اور پریکٹس شروع کر دیں ۔ حل یہ ہے کہ ان کو
پریکٹس سے ہٹا کر سرکاری نوکریاں فراہم کی جائیں اور نااہل لوگوں کی چھانٹی
کی جائے۔ |