وطنِ عزیز میں وکلاء حضرات کے احتجاج ‘ دوسروں سے
جھگڑے اور ہا تھا پائی کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں ۔ وکلاء میں کچھ
اسے وکیل بھی ہیں جو ایسے واقعات پر کفِ افسوس مَلتے ہیں ۔ایسے ہی ایک ایسے
نامی گرامی وکیل سے ملاقات ہوئی ، جنہوں نے اپنے ایک خواب کی تفصیل بتائی
تو میں نے ضروری سمجھا کہ اسے دوسرے وکلاء حضرات کے بھی گوش گزار کر
دوں۔کیونکہ اس میں ان کے لئے سوچنے اور سمجھنے کے لئے بہت سارا مواد مو جود
ہے۔
وکیل صاحب نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا کہ ایک رات جب میں محوِ
خواب تھا ،تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں بار روم میں بیٹھا ہوں کہ اپنے ایک
موئکل ’جو پیشے کے لحاظ سے معلم تھے ‘‘ سے کسی بات پر الجھ جاتا ہوں تو وہ
مجھے کہتا ہے کہ ،وکیل صاحب ! آپ کو کس بات کا گھمنڈ ہے ؟آپ تو مخلوق کی سب
سے گِری ہو ئی ہستی ہیں،جسے جو بھی چاہے،اٹھا کر استعمال کر لے۔آپ کا مؤکل
صرف چند ہزار روپے میں آپ کا ضمیر، آپ کی رائے،آپ کی قابلیت،آپ کی تعلیم ،آپ
کا دماغ،آپ کی چالاکی،آپ کا خلوص،آپ کا تجربہ،آپ کا رسوخ سب کچھ خرید لیتا
ہے اور پھر بکرے کی طرح آپ کوجس مقتل میں اس کا جی چاہے،گھسیٹتا پھرتا
ہے۔خود فرشتے کی طرح احترام سے کھڑا ہو جاتا ہے اور آپ کی زبان مبارک سے
اپنے دامن کا داغ دھلواتا ہے۔ بتائیے وکیل صاحب ! !!کیا اسی عزت و شہرت پر
آپ کو فخر ہے ؟ کیا اسی عظمت و دولت پر آپ کو شان اور ناز ہے ؟یہ سن کر
مجھے جیسے سانپ سونگھ گیا ۔میری زوردار زبان کو جیسے تالا لگ گیا، خاموشی
سے اٹھ کر بار روم کے ایک گوشے میں سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر ایک کرسی
پر بیٹھ گیا۔آخر اپنے کتابیں سمیٹ کر گھر چلا گیا۔گھر پہنچ کر بھی سکوت اور
خاموشی مجھ پر مسلط رہی۔ بیوی نے وجہ پو چھی تو میں نے سر درد کا بہانہ
بنایا۔کہنی کے سہارے ٹیک لئے میں اپنے بستر پر دراز ہوگیا اور سوچنے لگا،
کہ ماسٹر صاحب نے کتنی بھیانک اور ذلیل سچائیوں سے پردہ اٹھایا ہے۔اتنا
تجربہ اور علم ہونے کے باوجود یہ باتیں میرے ذہن میں نہیں آئی تھیں، ماسٹر
صاحب نے میرے کالے کوٹ میں ہاتھ ڈال کر تار تار کر دیا تھا۔میرے دل میں
علمیت،عزت اور امتیاز کے جو پھول لگے تھے،انہیں نوچ نوچ کرزمین پربکھیر
دئیے تھے۔
میں نے سوچنے کی کوشش کی کہ کسی طرح ماسٹر کی باتیں میرے ذہن سے محو ہو
جائیں لیکن ماسٹر نے تو بال کی کھال اتار کر گھناونی حقیقت کو اس طرح سامنے
رکھ دیا تھاکہ میری سالوں کی بنائی ہوئی عظمت میں زلزلہ آگیا تھا۔میں ایک
عجیب گھٹن کی کیفیت محسوس کر رہا تھا۔میں سوچنے لگا ، شر، جھگڑے، ہنگامے،
خون ریزی، زنا،چوری، ڈاکے،قتل اور عصمت دری ہی وہ منبع ہے جس سے میری
شہرت،دولت اور عزت کے چشمے پھوٹتے ہیں،میری خوش نصیبی کا درخت اسی سے ہرا
بھرا وشاداب ہے۔اسی شجر کاپھل میری لذیذ غذا ہے،اسی غذا کا بنا ہوا خون
میرے اور میرے خاندان کے شریانوں میں دوڑ رہا ہے اور یہی خون میرے آئیندہ
نسلوں کی رگوں میں دوڑے گا۔اگر آج ہی میرے عزیز وطن میں امن قائم ہو جائے
تو یہ سدا بہار درخت ٹنڈ منڈ ہو کر سوکھ جائے گا ۔مجھے ان قالوں کے مکروہ
چہرے سامنے نظر آنے لگے جو میرے زوردار دلائل کی وجہ سے بّری ہو گئے تھے،
مجھے ان بے گناہوں کی اکھڑی سانسیں بھی یاد آنے لگیں جو قاتل تو نہ تھے مگر
میرے قانون فہمی نے انہیں قاتل ثابت کیا تھا۔مجھے خیال آیا کہ وکالت بھی
کیسا پیشہ ہے جس کی امتیازی خصوصیت حقیقت کو دروغ اور فریب کو سچائی کا روپ
دینا کمال ہے۔میں کولہو کا بیل ہوں، صبح سے شام تک چکر میں رہتا ہوں،میری
کوئی منزل نہیں ہے۔ فلسفہ، آرٹ، ادب،اخلاق،ہر چیز مجھ سے روٹھی ہوئی ہے ،سب
مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔سب کو میرے قریب آنے سے گھن آتی ہے۔صبح سے دوپہر تک
کچہری، بار روم اور عدالت کے چکّر ! دوپہر سے شام گئے تک ،پرانے موئکلوں کی
جھوٹ موٹ کی ڈھارس اور نئے موکلوں سے سودے بازی۔۔نو دس بجے تک کھانا پینا
اور پھر اگلے دن کے لئے بحث کی تیاری کرنا ، سپریم کورٹ کے فیصلوں کا
مطالعہ۔۔۔وہی کولہو کے بیل کا چکر۔۔۔یہ سوچتے سوچتے مجھے ماسٹر صاحب کی بات
ٹھیک لگی۔ میں نیند میں خوفزدہ ہو کر چیخنے لگا ’’ وکیل صاحب ! آپ کو کس
بات کا گھمنڈ ہے ؟ وکیل صاحب !آپ کو کس بات کا گھمنڈ ہے ؟ |