رواں سال 23مارچ کے موقع پر ایک ویڈیو جو سوشل میڈیا پر
بے حدوائرل ہوا دیکھنے کا موقع ملا جس میں مختلف لوگوں سے پوچھا گیا کہ 23
مارچ کو ہوا کیا تھا جس کی وجہ سے ملک بھر میں چھٹی ہے؟
صرف چند ہی لوگوں نے اس سوال کا درست جواب دیا کہ یہ یوم قراردادِ پاکستان
ہےورنہ کسی نے اس دن کو کچھ بنادیا اور کسی نے کچھ۔ اگر چہ ویڈیودیکھیں تو
ہم بے حد قہمقہے لگائیں گے مگر یہ بے حد افسوس کی بات ہے کہ قیام پاکستان
سے لے کر اب تک من حیث القوم ، پاکستانی تاریخ ِ وطن سے ہی واقف نہیں ہیں۔
اب اسی اثناء میں بات کرتے ہیں ملک میں بسنے والی مجبور اقلیتوں کی۔بیچاری
1947ء سے خود بتابتاکر کہ ہم بھی یہاں کے ہی باسی ہیں، رہنے پر مجبور ہیں
کیونکہ اس ملک میں ستیاپرکاش سنگھا، جوشوافضل الدین، چوہدری چندولعل،
جوگندرناتھ منڈل وغیرہ سے صرف مسیحی اور چند دیگر اصحاب ہی واقف ہیں۔
آئین ودستور کے مطابق تو پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جس کے مطابق ہر شخص کو
جو اِس ملک کا شہری ہے، حق حاصل ہے کہ وہ آزادی سے زندگی کا لطف اٹھائے
۔آئیے اِس آزادی کے کچھ واقعا ت سنتے ہیں:
دن دیہاڑے ایک 25 سالہ ء مسیحی لڑکی عاصمہ یعقوب (ماریہ) پر رضوان گجر نامی
شخص مذہب تبدیل نا کرنے پر تیزاب پھینک دیتاہے۔
اسی طرح کراچی شہر کی ایک کالونی یوحناآباد سے مسیحی جوانوں کو بلاجواز کے
پولیس اٹھا لے جاتی ہے، خواتین سے بدتمیزی کرتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
کوئٹہ میں مسیحیوں پر دہشت گردوں کے پے درپے وار جاری ہیں۔
ایک مسیحی خاتون جو پاکستان میں ایک اچھے عہدے پر فائز ہیں، اُنکے دفتر میں
ایک عام شخص دوسرے شخص کو یہ آسانی سے کہتاہے کہ یہ بس ایک کیس کی مار ہیں
(عزوبہ عظیم،اسسٹنٹ کمشنر گجرات کا بی بی سی اردو کو انٹرویو)۔
فیصل آباد کی یونیورسٹی کے ایک مسیحی ملازم کے بیٹے کو چند اوباش لڑکوں نے
جنسی زیادتی کا نشانہ بناڈالا۔
چند دن ہوئے، لاہور کے علاقہء شاہدرہ کی پراچہ کالونی میں ایک گرجاگھر میں
آگ لگ گئی۔ یہ لگی یا لگائی گئی، اسکے بارے میں فرانزک رپورٹ کا انتظارہے۔
بھلا ہو ، لاہور کے ایک نجی ٹی وی چینل کا کہ اِس کی خبر دکھا دی وگرنہ اِس
ملک کے ٹی وی چینلز کو ایسے واقعات دیکھنے میں کوئی دلچسپی نا ہے یا پھروجہ
کچھ اور ہی ہے۔
مندرجہ بالا اور اِس طرح کے کچھ اور واقعات ماہءِ اپریل میں وقوع پذیر ہوئے
ہیں باقی گزرے ہوئے تین مہینوں میں اور کیا کیا ہوتا رہا، انٹرنیٹ پر پڑھا
جاسکتاہے۔
یوں تو ہمارے کچھ وزراء فوری نوٹس لینے میں بہت تیز ہیں مگر اقلیتوں کے
معاملے میں ایسی تیزی ناجانے کہاں غائب ہوجاتی ہے۔
بھلا ہو اُنکا جن کی ایجاد سوشل میڈیا ہے۔ اس کے ذریعے بہت سی خبریں معلوم
پڑجاتی ہیں وگرنہ ملکی میڈیا تو بس سیاسی خبروں کو مرچ مصالحہ لگاکر 24
گھنٹے دیکھانے میں ہی کافی محو ہے۔
اب کچھ بات کرتے ہیں، آنے والے الیکشن /انتخابات 2018ء کی جو متعین کرے گا
کہ آئندہ پانچ برسوں میں کیا ہونے والا ہے۔ جب سے الیکشن کی بات ٹی وی
چینلز پر چھڑی ہے، اقلیتوں کے حوالے سے کبھی کبھار ہی صرف ایک دوہی چھوٹی
سی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔اِس کے بعد اب تک اس حوالے سے ہر طر ف دھند ہے ،
جگنو ہے نا چراغ کوئی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اِقلیتیں اور کس حد تک ظلم وتشدد کا شکار بنائی جاسکتی
ہیں کیونکہ وہ تومجبور ہیں ، اُنکا کونسا کوئی ہے یہاں پر۔
جس ملک کے لوگ اپنی ہی تاریخ سے ناواقف ہوں (جیسا کہ ابتداء میں بیان
کیاگیاہے)، اُنہیں اپنے علاوہ دوسروں کا ملک میں رہنے کا کیا علم۔ لہذا و ہ
تو کسی بھی طرح کی مددکی پیشکش کرنے سے قاصر ہیں۔
اِسی طرح کس ادارے کا کہا جائے کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ ہیں کیونکہ وہ تو اِس
ملک کے حقیقی سپوتوں کے معاملات طے کرنے میں اِس قدر مصروف ہیں کہ انکے پاس
اقلیتوں کی بات سننے/انکی خبریں پڑھنے/دیکھنے اور اس پر نوٹس لینے یا ایکشن
کرنے کا وقت ہی نہیں ہے۔
کیونکہ اقلیتوں کی اہمیت اِس ملک میں بس اِتنی ہے کہ اُنکے پاس بھی اِس ملک
کاایک عدد شناختی کارڈ ہے۔ |