کیونکہ اردو میری زبان ہے۔

اردو ہماری قومی زبان ہے اور اس لحاظ سے ہمیں اس کو فروغ دینا چاہیے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ اردو زبان کو فروغ دینے کے بجائے اس کا استعمال کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ تو انگریزی کا پاکستان کی سرکاری زبان ہونا ہے ۔

اردو بنیادی طور پر یہ فارسی، ہندی، سنسکرت اور عربی زبان کے الفاظ پر مشتمل ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہر زبان کے الفاظ کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے اور بہت کم زبانوں میں یہ خاصیت ہوتی ہے لیکن اردو زبان کی یہی خاصیت اس کی دشمن بنتی جارہی ہے۔

کسی بھی ملک میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو’’قومی‘‘ کا درجہ دیاجاتاہے جس کے بعد وہاں کے باشندے ان چیزوں یاعلامات وشخصیات کوفخر اورقدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ خوددار قوم بھی وہی کہلاتی ہے جواپنی تہذیب وتمدن، مخصوص اقدار اور قومی ورثے کو سینے سے لگاکر اس کی حفاظت کرے اور ہرحالت میں اس پرقائم رہے۔

ہمارے شہرسے سب سے زیادہ اردو اخبارات روزآنہ شائع ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ مال دار لوگ بھی اخبار ،رسائل،خرید کر پڑھنے کی بجائے ہوٹل پر،چوک چوراہوں وغیرہ پر مفت حاصل کر کے پڑھنا چاہتے ہیں۔

دوسری طرف تمام دفتری امور کی خط وکتابت انگریزی میں ہے، بازاروں میں لگے سائن بورڈز انگریزی میں ہیں، ہسپتالوں اور دیگراداروں میں انگریزی الفاظ کا اتنااستعمال کہ عام آدمی بات ہی نہ سمجھے،کھانے پینے کی مصنوعات اور دوائیوں وغیرہ پر انگریزی تحریریں درج ہوتی ہیں، غرض ہر جگہ انگریزی ہی انگریزی ہے۔

ہر ایک کو یہ جاننے کا حق ہے کہ جسے اْس نے اپنا حکمران منتخب کیا ہے وہ قسم اٹھا کر قوم سے کیا وعدہ کر رہا ہے لیکن یہ وعدہ ایک ایسی زبان میں کیا جاتا ہے جسے پاکستان کی ایک معمولی سی اقلیت ہی سمجھ سکتی ہے ۔

دراصل عزت کی پہلی منزل گھر سے شروع ہوتی ہے لیکن ہم نے اپنی قومی زبان کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ خالص اردو بولنے والے کو اکثرتنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔

آج کسی کو اردو نہیں آتی وہ فخر سے بتاتا ہے جبکہ انگریزی نہ آنا شرمندگی کی بات سمجھی جاتی ہےحالانکہ اردوزبان عالمی زبان ہےاور یہ دنیا کی کئی جامعات میں پڑھائی جا رہی ہے۔جن میں چین،ترکی،جرمنی اور بھارت شامل ھیں۔اور کئی دوسرے ممالک میں اس پر کام ہو رہا ہےلیکن ہمارے ہاں اپنی قومی زبان کے فروغ کے لئے کوئی کام نہیں ہو رہا یہاں تک کہ مائیکروسوفٹ وئیر میں اردو ٹائپنگ اوراِن پیج پر بھی کسی اور ملک نے کام کیا ہےیہ بھی پاکستان میں نہیں بنایا گیا ۔ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کو فروغ دیں تاکہ یہ زبان زندہ رہےاور ترقی کرے۔

Aisha Zaman
About the Author: Aisha Zaman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.