کچھ عرصے سے مجھ کو اس طرح لگتا ہے کہ میں تھوڑا سا
پاگل ہوں اب آپ سُوچ رہیں ہو ں گے کہ وہ کس طرح تو چلیں میں آپ کو بتا ہی
دیتا ہوں جب بھی میں کوئی بات سنتا یا دیکھتا ہوں تو مجھ کو اس طرح لگتا ہے
کہ یہ میرئے لیے کوئی غیبی اشارہ ہے اور میں اُس پر آنکھیں بند کر کے
اعتبار کر لیتا ہوں کچھ عرصہ پہلے جب میڈیا پر ہر طرف بابا رحمتے کے چرچے
تھے کہ ہر گاؤں میں ایک بابا رحمتاں ہے جو انصاف دیتا ہے تو میں نے بھی بور
ی بسترا باندھا اورچکوال اپنے گاؤں کی طرف کوچ کر گیا بابا رحمتے کو تلاش
کرنے گاؤں پہنچا دو دن گاؤں میں تلاش کرتا رہا کہ ہمارئے گاؤں میں بابا
رحمتاں کون ہے پتا چلا کہ اس نام کا بندہ تو ہمارئے گاؤں میں کوئی بھی نہیں
اگلے دن پرانی ووٹر لسٹیں نکلوا ئی کہ ہو سکتا ہے میری تلاش سے پہلے ہی
بابا دنیا سے کوچ کر گیا جس وجہ سے مجھ کو ابھی تک انصاف نہیں مل سکا لیکن
مایوسی کے سوا کچھ بھی نہ ملا گاؤں کی کھلی فضا میں رات کو آسمان کے نیچے
لیٹا ہوا تھا تو یک دم دماغ میں ایک خیال آیا کہ جس طرح میرئے گاؤں کا
پولنگ اسٹیشن تین دیہاتوں پر مشتمل ہے ہو سکتا ہے تینوں دیہاتوں کا بابا
رحمتاں بھی سانجھا ہو اور مجھ کو تو چاہیے تھا انصاف بے شک بابا رحمتاں
سانجھا ہی کیوں نہ ہو اگلے دن صبح صبح باقی دودیہاتوں کی طرف رخ کیا لیکن
شام تک ماسوائے دھکوں کے کچھ بھی نہ ملا یہ سُوچ کر واپس لاہور کی طرف رُخ
کیا کہ اپنے نصیب میں انصاف ملنا ہے ہی نہیں کیوں کہ انصاف ملنا ہوتا تو
گاؤں میں بابا رحمتا ں بھی مل ہی جاتااس ہی مایوسی میں کچھ دن گزرئے تھے کہ
غریبوں کے لیے انصاف کہاں اور انصاف دینے والوں کے پاس ہم جیسے مسکینوں کے
لیے وقت کہاں تو ایک اور خبر نظر سے گزری کہ میرئے پیارئے ملک میں فریادیوں
کی فریاد سنی جا رہی ہے تو دماغ میں پرانے زمانے کے بادشاؤں کا وقت گھومنے
لگا کہ محل کے باہر ایک گھنٹا لٹکا ہوتا تھا جس کو فریادی زور زور سے بجاتے
تھیں اور اپنی فریاد بادشاہ سلامت تک پہنچاتے تھے لیکن اس ملک میں بادشاہ
سلامت ہے کون اب تک ہم جن کو بادشاہ سلامت سمجھتے رہے وہ تو خود فریادی
نکلے لیکن اپنے دماغ میں تو صرف گھنٹا گھوم رہا تھا جس کی وجہ سے اُسی وقت
لاہور کی گلیوں بازاروں میں آوارہ گردی شروع کر دی کہ وہ گھنٹا نظر آئے جس
کو زور سے دھکا دوں تو ٹن ٹن ٹن کی آواز ہر طرف گونجے اور پھر ایک آواز آئے
کہ کہ بتا فریادی تیری فریاد کیا ہے لیکن پورئے لاہور میں دھکے اور اورنج
ٹرین کے کام کی وجہ سے اُڑنے والی مٹی کھانے کے بعد بھی گھنٹا تو دور کی
بات فریادیوں کے لیے ہوا میں لٹکتی ہوئی ایک ٹلی تک نہ ملی تو پھر مایوس ہو
کر اپنے فلیٹ پر پہنچا اپنے ایک دوست کو ساری بات بتائی پہلے تو وہ ہنسا
پھر کہنے لگا یار واقعی تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے اب کمپیوٹر کا دور ہے
گھنٹا تم کو کہا سے ملنا ہے اور ویسے بھی لا ہور والے تو اس وقت انصاف کر
ہی نہیں رہے بلکہ لاہور والوں کے ساتھ تو اس وقت انصاف انصاف کھیلا جا رہا
ہے اور انصاف کرنے والے اسلام آباد میں بیٹھے ہیں اگر تم نے انصاف لینا ہے
تو اسلام آباد والوں کے در پر حاضری دینی پڑئے گی انصاف کے حصول کے لیے میں
آگے ہی بڑئے خرچے کر چکا تھا اب اور دھکے اور خرچے اپنی اوقات سے باہر اوپر
سے یہ بھی ڈر اگر کسی نہ کسی طرح اُن کے در پر پہنچ بھی گیا تو مجھ غریب کو
کون سا کسی نے مین گیٹ تک لینے آنا ہے جو عزت سے اپنی فریاد سنانے اندر چلا
جاؤں گا کیوں کہ میں فریادی بھی ذرا غریب قسم کا ہوں اور غریب بندئے کو تو
غریب چوکیدار بھی اندر نہیں جانے دیتا یہ سُوچ کر اسلام آباد فریاد لے کر
جانے کا فیصلہ ترک کیا اور لگا دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے صفحات کالے کرنے
صفحات کالے کرنے کا فریضہ تو میر ا وکیل بھی سرانجام دئے رہا ہے پچھلے
گیارہ سال سے میرئے لیے لیکن ہے میری طرح وہ بھی غریب جس کی وجہ سے عدالت
میں بھی بات سُنی جاتی ہے میرئے مخالف امیر وکیل کی 2005 میں پنجاب رورل
سپورٹ پروگرام میں ریجنل پروفیشنل فنانس کے طور پر میں تعنیات ہوامیری پہلی
پوسٹنگ فیصل آباد تھی مجھ سے پہلے ہی وہاں کے آر جی ایم خواجہ اختر کرپشن
کے گل کھلا کے گوجرانوالہ اپنی ٹرانسفر کروا چکے تھے خواجہ اختر پنجاب رورل
سپورٹ پرورگرام کے کے سی ای او کی پسندیدہ شخصیت تھے جس کی وجہ سے اُن کو
سات خون معاف تھے2007میں خواجہ اختر نے میری ٹرانسفر ہیڈ آفس کے ذریعے
گوجرانوالہ کروا لی گوجرانوالہ میں بھی اُن کا وہ ہی چال چلن تھا جو فیصل
آباد میں تھا جس کی وجہ سے میری اُن سے چپقلش شروع ہو گئی نومبر 2007میں
بغیر کسی وجہ سے اُنھوں نے مجھ کو ملازمت سے برخاست(Terminate)کر دیا یہاں
سے شروع ہوتی ہے کہانی انصاف کے حصول کی 2007میں میں نے گوجرانوالہ لیبر
کورٹ میں اپیل کی 2010میں لیبر کورٹ سے مجھ کو بحال کر دیا گیاپنجاب رورل
سپورٹ پروگرام والوں نے لیبر ٹریبونل لاہور میں اپیل دائر کی2012میں اُنھوں
نے معزز عدالت سے درخواست کی کہ وہ آڈیشنل ثبوت (Evidence)جمع کروانا چاہتے
ہیں عدالت نے میر ا کیس دوبارہ لیبر کورٹ گوجرانوالہ میں ریمانڈ بیک کر
دیا2014 میں دوبارہ لیبر کورٹ گوجرانوالہ نے مجھ کو جا ب پر بحال کر دیا
ادارئے نے دوبارہ لیبر ٹریبونل لاہور میں اپیل کی اور معزز عدالت کے رو برو
یہ درخواست کی کہ لیبر کورٹ کی یہ صوابدید نہیں ہے کہ وہ اس کیس کو سُنے
2016 میں لیبر ٹریبونل نے دوبارہ گوجرانوالہ لیبر کورٹ کو کیس ریمانڈ بیک
کر دیا کہ دیکھا جائے کہ یہ کیس لیبر کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے یا
نہیں2007 سے لے کر2018 تک گیارہ سال انصاف کا حصول میرئے لے ناممکن تیرہ
لاکھ سے ز یادہ عدالتوں میں زیر التوا کیسوں میں سے ایک کیس میرا بھی ہے یہ
صرف سروس یا لیبر کورٹ کے مقدمات کی صورتحال نہیں ہے بلکہ فوجداری اور
دیوانی مقدمات کی صورتحال اس سے بھی ابتر انسپکٹر عمر حیات گوندل آج سے
پندرہ سال پہلے ضلع جہلم کی تحصیل دینہ میں ایک تھانے میں ایس ایچ او
تعنیات تھے رات کو جب وہ اپنے گھر میں سو رہے تھے اُس وقت تھانے میں تفتیشی
کے تشدد سے ایک ڈاکو ہلاک ہو گیا ڈاکو کے وارثوں نے پرچے میں انسپکڑ عمر
حیات گوندل کا نام بھی شامل کر وا دیاافتخار چوہدری صاحب کی بحالی کے بعد
اُس ڈاکو کی والدہ نے چوہدری صاحب کے پاؤں میں دوپٹہ رکھ کر انصاف کی فریاد
کی اور اس انصاف کی بھینٹ عمر حیات گوندل چڑھ گئے سیشن کورٹ نے عمر حیات
گوندل کو سزائے موت سنا دی تیرہ سال جیل میں رہنے کے بعد صلح کی صورت میں
عمر حیات گوندل رہا ہوئے عمر حیات گوندل کی فیملی سے بھی پوچھنا چاہیے کہ
اس انصاف سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے اُنھوں نے کتنے پیسے دئیے اُن کے
بچوں نے کتنی تکلیفیں برداشت کی اور اُن کی بیوی نے اپنے خاوند کے بغیر کس
طرح تیرہ سال گزارئے دیوانی مقدمات کا بھی احوال آپ لوگ پڑھ لیں چوہدر ی
بشارت صاحب نے ایک گھر بنایا اور کرائے پر دئے دیادس سال کرایہ وصول کرتے
رہے ایک دن کرایہ دار نے کرایہ دینے سے انکار کر دیا اور فرمایا آپ نے مکان
مجھ کو فروخت کر دیا ہے چورہدری صاحب شریف آدمی تھے فریادی بن کر عدالت کے
روبرو پیش ہو گئے سول کورٹس ہائی کورٹس میں بارہ سال دھکے کھانے کے بعد
پچیس لاکھ دئے کر کرایہ دار سے مکان خالی کروایاگیارہ سال جس طرح میں نے
عدالتوں کے دھکے کھائے اور جو ابتر صورتحال دیکھی وکیلوں کی فیسیں، منشیوں
کے خرچے، تاریخ کے لیے ریڈر کے ترلے اور پیسے ،انصاف کی ابتر صورتحال اس
تمام صورتحال کے بعد میں تو عدالتوں کے سربراہان سے فریادی بن کر یہ
درخواست ہی کرنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ مائی باپ خالص خوراک بھی ضروری
،صاف پانی بھی لازمی لیکن ایک نظر اس طرف بھی۔ |