کالی ماتاکے پجاری دیوانہ وارمندروں کی طرف سرپٹ دوڑرہے
تھے اُن کاساحراعظم رام دیوعرف شادی دیوبڑے کروفرسے خواجہ معین الدین چشتی
ؒ کے مقابلے پرآیالیکن نگاہِ چشت کی تاب نہ لا تے ہوئے خواجہ پاکؒ کے قدموں
پرسررکھ کرحلقہ اسلام میں داخل ہو گیا‘رام دیوکی شکست اورخواجہ چشتؒ کے
قدموں سے لپٹاایسا منظرتھاکہ جس نے دیکھااُسے اپنی بصارت پر یقین نہ
آیاسرزمین ہندجوہزاروں سال سے جھوٹے خداؤں شعبدہ بازوں جادوگروں کے نرغے
میں تھی اہل ہندجن کی نس نس میں توہم پرستی شامل تھی وہ سمجھے کہ مسلمان
فقیربہت بڑاجادوگرہے جس کے سامنے جوبھی آتاہے آپؒ کے جادوکی تاب نہ
لاکراعترافِ شکست کرلیتا ہے اورمسلمان ہوجاتاہے راجہ اوراہل اجمیربڑے مان
سے رام دیوکوخواجہ چشت ؒ کے مقابلے پرلائے تھے لیکن نگاہِ چشت نے شادی
دیوکاکام تمام کردیابت پرستوں پرشدیدخوف طاری تھاوہ درویش باکمال کی حدودسے
دوربھاگ رہے تھے مندروں میں جاکرگھنٹیاں بجارہے تھے کالی ماتا بھولے ناتھ
ہنومان کے بتوں کے سامنے اپنی پیشانیاں رگڑرہے تھے‘ گاؤ ماتاناگ دیوتاکو
اناج سونے جواہرات کی بھینٹ چڑھارہے تھے مدد مانگ رہے تھے اجمیر شریف میں
چراغ چشت کیاروشن ہواکہ بت پرستی کااندھیرااجالے میں بدلنے لگا راجہ پرتھوی
راج کو اپنا تخت شدیدخطرے میں نظرآیااُس کی ہر کو شش ناکام ہو رہی تھی
جوبھی درویش کے سامنے جاتاوہ بت پرستی چھوڑکر حلقہ اسلام میں داخل ہو جاتا‘
اہل ہندوستان میں شعبدہ بازی عام تھی اِس لیے وہ خواجہ چشت ؒ کوبھی بہت
بڑاشعبدہ باز سمجھ رہے تھے کہ یہ درویش اپنی ساحرانہ قوتوں کے طفیل ہندؤوں
کومسلمان کر رہا ہے اب پھرراجہ اوراُس کے مشیرسرجوڑے بیٹھے تھے کہ سحرکا
مقابلہ سحرسے ہی کیا جاسکتاہے ۔اِسی لیے وہ شادی دیوکو مقابلے پر لا ئے تھے
شادی دیوکی شکست پر ہر طرف مایوسی کے سائے لرزاں تھے اچانک ایک مشیرنے جے
پال نامی جادوگرکا نام لیاجے پال نامی جادوگرکی شہرت پورے ہندوستان میں تھی
عرصہ درازسے وہ دنیاسے کٹ کر پہا ڑیوں میں منتر تنترجادو سیکھ رہا تھااب وہ
اپنے فن میں کمال حاصل کر چکاتھا‘پورے ہندوستان میں اُس کے مقابلے کاکوئی
اورجادوگرنہیں تھاوہ سب کاگرواوراستادتھاپرتھوی راج کو ذاتی طورپربھی اُس
سے بہت عقیدت تھی جے پال کانام سن کر پرتھوی راج اچھل پڑا‘ فوری
طورپرچندگھوڑسواروں کو جے پال کی طرف برق رفتاری سے روانہ کیا کہ اُسے
جاکرہماراسلام دواورعقیدت احترام سے لے کر ہما رے پاس آؤجے پال کے ہزاروں
شاگردتھے علم طلسمات میں اُس کاپورے ہندوستان میں کوئی ثانی نہیں تھا۔جے
پال جب راجہ کے کمرے میں داخل ہوا تو راجہ نے قدم چھوکر اُسے اپنے تخت
پربٹھایااور شادی دیوکی شکست اوراناساگرکاواقعہ بتایا‘ جے پال تمسخرانہ
اندازمیں مسکرایااوربولاپورے ہندوستان پر صرف میری حکومت ہے میں جسے چاہوں
تخت دوں جسے چاہوں تختہ ‘میری شکتیوں کا کو ئی مقابلہ نہیں کر سکتاآج
مسلمانوں کااِس شہرمیں آخری دن ہے آج کے بعدکبھی کوئی ادھرآنے کی جرات نہیں
کرے گاآئندہ مسلمان ناپاک لوگ اِس پاک دھرتی کی طرف نہیں آئیں گے ‘جے پال
کو اپنی روحانی قوت کاشدت سے غرورتھااُس نے عرصہ درازتک مجاہدے کئے تھے وہ
مغرورانہ اندازمیں بولااِس درویش اوراِس کے ساتھیوں کوتومیرے شاگردہی شکست
دے دیں گے ‘میں اپنی توہین سمجھتاہوں جواِن کے مقابلے پرجاؤں پھراُس نے
اپنے خاص چیلوں کومختلف منترتنترسکھاکرحکم دیاکہ وہ جائیں اور جا کر
مسلمانوں کاکام تمام کرآئیں اپنے گروکے حکم پرپانچ سوجادوگروں نے مسلمانوں
کی چھوٹی سی جما عت پرحملہ کردیا‘ راجہ ‘جے پال اوردرباری دیکھنے لگے کہ آگ
کے شعلے فضامیں بلندہوتے ہیں پھرآگ کے گو لے برق رفتاری سے خواجہ جی ؒ کی
طرف بڑھتے ہیں وہ بہت خو ش تھے کہ آگ کے یہ گو لے مسلمانوں کوجلاکرخاکسترکر
دیں گے لیکن جب انہیں پتہ چلاکہ آگ نے مسلمانوں کاکچھ بھی نہیں
بگاڑاتوجادوگروں نے دوسراحربہ استعمال کیا‘ اب چیلوں نے جادوکے زورپرلاکھوں
سانپ پیدا کئے جو پھن پھیلائے برق رفتاری سے مسلمانوں کی طرف بڑھنے لگے
شہنشاہِ چشت ؒ نے حقیقت میں اپنے علا قے کا حصارکردیا تھاسانپ جیسے ہی اُس
حصارکے قریب آتے توگرجاتے سرپٹک پٹک کر جان دے دیتے اِسطرح لاکھوں سانپ بھی
مسلمانوں کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی مر گئے ‘ آگ کے گولوں اورسانپوں
کاعبرتناک انجام دیکھ کرجے پال کے منہ سے آگ کے شعلے نکلنے لگے ‘چیلوں نے
جب اعتراف شکست کیاتوآگ بگولہ ہو کراٹھا اورتیزی سے مسلمانوں کی طرف جانے
لگاجے پال نے زندگی میں پہلی بارشکست کامزاچکھاتھا یہ شکست اُس سے برداشت
نہیں ہو رہی تھی جب وہ مسلمانوں کے قریب پہنچاتونومسلموں نے اُسے دیکھ
کرشاہِ اجمیرؒ سے کہا یہ جے پال ہے جو ہندوستان کاسب سے بڑاگرواورجادوگرہے
اِس نے آج تک شکست نہیں کھا ئی شاہِ چشت ادائے بے نیازی سے بو لے جو حشر
پہلے جادوگروں کاہوااِس کا بھی ویساہی ہوگاحق تعالیٰ میراساتھ دیں گے پھرجے
پال قریب آکرآگ برساتاہوابولامیں جے پال ہوں ہندوستان کے طول وعرض میں صرف
میری حکومت ہے میری اجازت کے بغیر پتہ بھی حرکت نہیں کرتامیں تمہیں تمہاری
گستاخی معاف کرتا ہوں چلے جاؤ یہاں سے ورنہ میں تمہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح
مسل دوں گا۔میں تمہیں جانے کاراستہ دیتاہوں ورنہ میرے قہرکے لیے تیارہوجاؤ‘
خواجہ خواجگان ؒ پرسکون لہجے میں بولے کس پر عذاب ہو گایہ خداہی جانتاہے
اورہم یہاں سے جانے کے لیے نہیں آئے یہ دھرتی آسمان خداکی ہے ہم اُسی
خداکاپیغام حق لے کر آئے ہیں اگرتم اپنی جان سلامت دیکھناچاہتے ہوتوپیغام
حق کوقبول کرلوورنہ تمہاراحال بھی وہی ہو گاجو تم سے پہلے آنے والوں کا ہوا
تھا۔جے پال درویش کی بے نیازی اوربے خوفی پربھڑک اٹھااپنے ہاتھ کو فضامیں
بلندکیاآسمان سے ایک رسی برآمدہوئی جس کاایک سرازمین پر دوسراآسمان کی
بلندیوں میں تھاجے پال نے رسی پر چڑھناشروع کیا اور یہ کہتاجارہاتھامیں
اُوپرجاکرتم پرعذاب نازل کروں گاپھرجے پال آسمان میں غائب ہو گیا‘درویش
باکمال نے اپنے جوتوں کو حکم دیاجاؤاُس جادوگرکوتلاش کر کے نیچے لاؤپھراہل
اجمیر نے عجیب منظردیکھاجے پال تیزی سے نیچے آرہا تھااُس کے سرپرخواجہ جی ؒ
کے جوتے ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے وہ مدد مدد کی چیخ و پکارکر رہا تھازمین
پر آتے ہی شہنشاہِ چشتؒ کے قدموں پراپناسررکھااورکہاجس انسان کو ہندوستان
بھرکے جادوگرتلاش نہیں کر سکتے تھے اُس کو ایک درویش کے جوتوں نے آسمان کی
بلندیوں سے زمین پر پٹخ دیامیراعلم ہارا آپ ؒ جیتے اے شہنشاہِ اسلام مجھے
اپنی غلامی کاشرف عطافرمائیں باقی زندگی آپ ؒ کی غلامی میں گزرے گی پھر جے
پال باآوازبلندکلمہ پڑھ کر مسلمان ہوا شاہِ چشت ؒ نے جے پال کااسلامی نام
عبداﷲ صحرائی رکھا ۔
|