بچوں کی کتب کا عالمی دن 2 اپریل کو منایا جاتا ہے۔ اس دن
کو جنوں اور پریوں کی کہانیوں کے مشہور زمانہ مصنف ہینس اینڈرسن کے یومِ
پیدائش سے منسوب کیا جاتا ہے۔اس دن کی مناسبت سے واکس ، سیمینارز اور خصوصی
تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ،تاکہ بچوں میں مطالعہ کا شوق پیدا کیا جا
سکے۔ حالاتِ حاضرہ کے تقاضوں کے پیشِ نظر مستقبل کے چیلنجز سے عہدہ بر آ
ہونےسمیت دیگر امور پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ کسی بھی استاد کی طرح اچھی اور
سبق آموز کتاب بھی بچوں کی تعمیر ی سوچ اور تربیت میں اہم کردار ادا کرتی
ہے۔ آج کل کے بچے اس الیکٹرونک دور میں اسمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ کے دیوانے
ہیں۔ کتابوں سے دوری کی ایک وجہ ان اشیا ء کا بے جا استعمال بھی ہے۔
ماہرین کے مطابق جن بچوں میں ذوقِ مطالعہ پایا جاتا ہے وہ با صلاحیت اور
غیر معمولی ذہانت کے حامل ہوتے ہیں۔کیونکہ کتب بینی سے ان کی تعمیری سوچ پر
مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ،صحیح اور غلط کی پہچان میں آسانی ہو جاتی ہے،
سبق آموز کہانیوں سے روزمرہ زندگی کے معمولات پر بھی گہرا اثر ہوتا ہے۔
کیونکہ بچے 3 سے 4 سال کی عمر میں ذہنی پختگی کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں
اور ہر بات کو جلدی سمجھ لیتے ہیں۔ بچوں کی کردار سازی میں معیاری کتب کی
اہمیت سے انکار ناممکن ہے۔ بچوں میں اخلاقیات اور معاشرتی شعور اجاگر کرنے
کے لیے کتاب سے بہتر ساتھی کوئی نہیں ہے۔ مگر یہ ساتھی بنانے میں ہمیں بچوں
پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
آج کل کی خواتین اپنی اولاد پر بھرپور توجہ دینے میں ناکام ہیں کیونکہ وہ
تو ٹیلی ویثرن پر مارننگ شوز کے سحر میں کھوئی ہوتی ہیں یا پھر موبائل فونز
کے ساتھ مصروف نظر آتی ہیں۔ اپنے بچوں کی تربیت کے لیے کوئی خاص اہتمام
نہیں کرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے بچوں کو موبائل فون تھما کر خود گھریلو
کام کاج کرتی رہتی ہیں۔ سکول جانے والے بچوں کو موبائل فون تھما کر یا لیپ
ٹاپ کے آگے بٹھا کر ہاتھ میں چپس کا پیکٹ پکڑا کر اپنی مصروفیات میں کھو
جاتی ہیں۔ آج کل بچوں کو گھر پر خود پڑھانے کا رجحان بھی کم ہوتا چلا جا
رہا ہے۔ خاتون ِ خانہ چاہے کتنی بھی پڑھی لکھی ہو اپنے بچوں کو گھر میں خود
پڑھانے سے گریز ہی کرتی ہیں۔ کیونکہ بچے شرارتیں کریں یا پڑھنے کے دوران
تنگ کریں تو آج کل کی مائیں ،سیدھا اٹھا کر کسی ہوم ٹیوشن یا اکیڈمی میں
داخلہ کروادیتی ہیں اور یوں اپنی جان چھڑوا لیتی ہیں۔ خواتین کی کوشش ہوتی
ہے کہ ان کے بچے صبح سکول جائیں اور پھر ٹیوشن پڑھنے کے بعد شام میں گھر
آئیں ، بس سارا دن گھر پر نہ رہیں تاکہ آپس میں لڑائی جھگڑا بھی کم ہو اور
انہیں چیخنے چلانے کا موقع بھی کم ملے۔
خواتین ان جھمیلوں میں پڑنے کی بجائے بچوں کی غیر موجودگی میں ہی اپنی
عافیت جانتی ہیں حالانکہ ان کی عادتوں کو بگاڑنا یا سنوارنا ان ہی کا فرض
ہے۔ بچوں کو صحت مندانہ سرگرمیوں میں مصروف کرنے کی بجائے موبائل یا
کمپیوٹر کے استعمال کی ترغیب دی جاتی ہے جس سے بچوں کی بینائی تیزی سے
متاثر ہوتی ہے۔ دوسرا بچوں کے ذہن کی تعمیری سوچ جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ بچوں میں مطالعہ کا ذوق پیدا کرنے کے لیے انھیں روزآنہ
رات کو کوئی نہ کوئی سبق آموزکہانی ضرور سنائیں۔ اور جب کبھی آپ کہانی نہ
سنا سکیں تو بچے میں تجسس ہو اور وہ خود کہانی پڑھنے کی کوشش کرے۔
بچوں کی کتب بینی کےعالمی دن کے موقع پر ہم سب کو عہد کرنا چاہیے کہ بچوں
میں اس شوق کو بیدار کرنے کے لیے اہتمام کریں ۔ کتاب پڑھنے کی اس صحت
مندانہ سرگرمی کو فروغ دیں اور انفرادی طور پر اقدامات کریں۔ یقیناً آنے
والی نسلوں کے لیے کتب بینی بہترین تحفہ ہے۔ |