نصاب تعلیم کی تبدیلی ہماری اہم ضرورت

نصاب تعلیم کی تبدیلی ہماری اہم ضروت بن چکی ہے۔

اگر ہم پاکستان میں تعلم کے بارے میں بات کریں تو ہمیں معلوم ہو جاۓ گا کہ آج جو نوجوان نسل تیار ہو رہی ہے وہ کس رخ پر چل رہی ہے۔ ایک طرف تو ہمیں نیو ٹیکنالوجی دے دی گٸ جس کا صحیح استعمال ہمیں نہیں سکھایا گیا اور دوسری طرف ہمارا تعلمی نظام ہے جس کی وجہ سے وہ بچے جو پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں انہیں اس طرح کی تعلیم دی جارہی ہے وہ چاہتے ہوۓ بھی کچھ نہیں کر پاتے۔ پہلے جو نصاب تھا اس کو پڑھ کر مسلمانوں کے اندر نٸ جدوجہد کی امند پیدا ہوتی تھی پہلے جو جوش اور جذبہ لوگوں کے اندر بیدار تھا جو جذبہ محمد بن قاسم کے اندر تھا جو جذبہ قاٸداعظم کے اندر تھا وہ جذبہ آج کے نوجوانوں کے پاس کیوں نہیں ہے ہمیں جو تاریخ بتاٸ جاتی ہے اس سے ہمارے اندر وہ جذبہ بیدار کیوں نہیں ہوتا ان کا نصاب تعلم کیا تھا وہ کیا پڑھتے تھے آج کا نوجوان اپنا اٸیڈیل ایک گلوکار موسیقار کو کیوں بنا رہا ہے اپنے بزرگوں کوکیوں نہیں بنا رہا ان کو یہ بتایا جا ہی نہیں رہا جو تعلیم آج امیرکہ کے پاس ہے وہ ہمارے بزرگوں کی عطا کی ہوٸ ہے اور وہ لوگ جو نصاب جاتے جاتے ہمیں دے گۓ وہ اب تک ہم لوگ استعمال کر رہے ہیں اور وہ لوگ ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں انگریزوں نے جو ہمیں نصاب دیا اس کی بدولت ہماری نوجوان نسل گہری نیند سو رہی ہے۔

ہمارے ہاں گورنمنٹ اور پراٸوٹ اسکول اور کالجز ہیں جو بچے گورنمنٹ اسکول سے پڑھتے ہیں انکے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے انہوں نے کچھ نہیں پڑھا اس کے برعکس جب ہم پراٸیوٹ اسکولوں کو دیکھیں تو جو بچے اس میں پڑھتے ہیں ان کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کو سب کچھ آتا ہے ۔

گورنمنٹ اسکول کے سلیبس اور پراٸیوٹ اسکول کے سلیبس میں ذمین آسمان کا فرق ہے پراٸیوٹ اسکول میں انگلش ساٸنس کے مضامین شروع ہی سے پڑھاۓ جاتے ہیں جبکہ گورنمنٹ میں انگلش شروع سے نہیں پڑھاٸ جاتی اس لۓ وہ پراٸیوٹ اسکول کے بچوں کے مطابق خود کو ان کے برابر نہیں سمجھتے اگر ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہے اور گورنمنٹ اور پراٸیوٹ اسکول کے بچوں کو ایک ساتھ دیکھنا ہے تو ہمیں دونوں کا سلیبس ایک جیسا اور اسلام کے مطابق ترتیب دینا ہوگا تاکہ ہمارے نوجوانوں کے اندرنیا جذبہ پیدا ہو اور ہم گورنمنٹ اور پراٸوٹ اسکول کے بچوں کو ایک ہی صف میں کھڑا دیکھ سکیں ہمیں اس مسلہ کو حل کرنا چاہیے تاکہ ہمارا تعلیمی نظام کچھ بہتر ہو سکے۔

Sameera siddiqui
About the Author: Sameera siddiqui Read More Articles by Sameera siddiqui: 8 Articles with 11598 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.