دراصل مختلف معاشرے مختلف سوچ اور افکار کا نتیجہ ہوتے
ہیں، لیکن بد قسمتی سے کم شرح خواندگی کی وجہ سے لوگوں کا معاشروں کی تقسیم
کا فارمولا کچھ اور ہی ہے. ہمارے ہاں معاشرے کی تقسیم روپیہ،پیسہ، دولت اور
سٹیٹس پر کی جاتی ہے. جو یکسر اصولوں کے منافی ہے. روپیہ، پیسہ گنتی میں
آتا ہے. اور جو چیز گنتی میں آ جائے وہ بلآخر ختم ہو کے رہتی ہے. تو جو چیز
اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکے، وہ کیونکر معیاری ہو سکتی ہے. اس سے آگے چلیں
تو معلوم پڑتا ہے کہ خود انسان کا اپنا وجود بھی معیاری نہیں. بلآخر وہ بھی
ختم ہو جانا ہے ۔تو جب یہ سب چیزیں جلد ختم ہو جانے والی ہیں تو کیوں نا
کچھ ایسا تلاش کیا جائے جو دیر پا ہو. جیسا کے مثبت سوچ اور بہترین رویہ.
اب جیسے عبدالستار ایدھی ہم میں نہیں رہے، لیکن انکی مثبت سوچ اور بہترین
رویہ آج بھی ھمارے درمیان موجود ہے.معلوم ہوتا ہے انسان کا عمل انسان سے
بڑا ہوتا ہے، جانے والا تو چلا جاتا ہے لیکن اسکے عمل رہ جاتے ہیں، آج
ھمارے شب و روز میں برکت نہیں رہی، کیونکہ اس میں نیک نیت نہیں رہی. بہت سے
ایسے کام ہم کر رہے ہوتے ہیں یا ہم سے انجانے میں ہو جاتے ہیں جس میں ہم
کسی دوسرے کی ذات کو نقصان پہنچا کر اپنا فائدہ ڈھونڈ رھے ہوتے ہیں. تو سب
سے پہلے تو ہمیں خود سے یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنے فائدے کیلئے کبھی کسی
کا نقصان نہ کریں گے. اگر یہ کر پائیں تو مطلب پچاس فیصد تو قبلہ درست ہو
گیا. باقی کا پچاس فیصد درست کرنے کیلئے ہمیں اپنی سوچ کو ایک مثبت سمت
دینا ھو گی، اپنے رویوں میں بڑوں کیلئے ادب اور خدمت، چھوٹوں کیلئے شفقت
اور محبت لانا ہو گی کمزور کیلئے عزت اور طاقتور کیلئے صداقت لانا ہو گی.
اپنے روز مرہ معاملات میں درگزر کرنا، معاف کرنا عام کرنا ہو گا. کام مشکل
ہے نا ممکن نہیں، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کام کتنا ہی مشکل ہو اسکو کرنے
کا آسان طریقہ یہی ہے کہ اسے شروع کر دیا جائے. تو بس آسانیاں بانٹیں اور
آسانیاں سمیٹیں. یہاں پہ ایک اور بات قابل ذکر ٹھرتی ہے ہمارے معاشرے کا
بگاڑ ہمارے گھر کے بگاڑ سے شروع ہوتا ہے. عام مشاہدے کی بات کرتا ہوں،
ہماری نوجوان نسل محبت کا اظہار وہاں کرتی ہے جہاں یہ کمبخت ہوتی بھی نہیں.
اور جن رشتوں میں محبت پنپتی ہے جیسا کے ماں،باپ،بھائی،بہن بیوی،بچے وھاں
اظہار کرتے ہمیں شرم آتی ہے. محبت کا ہونا لازم ہے ان رشتوں میں لیکن صرف
محبت کرنا کافی نہیں اسکا اظہار بھی ضروری ہے، اسلام میں داخل ہوتے ہی سب
سے پہلا سبق ہم یہی تو سیکھتے ہیں، کہ اسلام کامحض دل سے قبول کرنا کافی
نہیں ہے،اسکا اظہار بھی ضروری ہے. آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی سے بھی
اس عمل کی تصدیق ملتی ہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت عائشہ رض سے صرف محبت
کرتے نہیں تھے اسکا اظہار بھی کرتے تھے، گوشت کا ٹکڑا جہاں سے وہ کھاتیں آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم بھی وہیں سے کھاتے، جس برتن سے وہ پانی پیتیں، آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم بھی اسی برتن سے اور وہیں سے منہ مبارک لگا کے پیتے اور انھیں
بھی اپنا یہ عمل دکھاتے. مسلمانوں کی کھوئی ھوئی شان دوبارہ حاصل کرنے
کیلئے لازم ہے کے ہم حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بتائی اور کر کے دکھائی گء
تعلیمات پر عمل کریں. اور اسی ڈگر پہ چل کے ہم مثبت سوچ اور بہترین رویے کے
متحمل ہو سکتے ہیں. معاشرہ سوچ سے بنتا ہے، پس ہمیں اپنی سوچ کو مثبت اور
عمل کو ٹھیک کرنا ہو گا. اﷲ ہمیں توفیق عطا فرمائے.آمین |