حضرت ام عمارہ رضی اﷲ عنہا کے بیٹے حضرت حبیب رضی اﷲ عنہ
کو رسول اقدسﷺ نے مسیلمہ کذاب کے پاس اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تاکہ اسے
راہ راست پر لایا جاسکے۔
اس بدبخت نے سفارتی آداب کو پامال کرتے ہوئے حضرت حبیب بن زید رضی اﷲ عنہ
کو گرفتار کرلیا اور ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا اور ان سے پوچھا:
''کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں میں
گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں''۔
پھر اس نے پوچھا:
''کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اﷲ کا رسول ہوں''۔
انہوں نے کہا، میں بہرہ ہوں، میں سنتا نہیں۔
مسیلمہ کذاب نے یہ سوال بار بار کیا۔ ہر بار حضرت حبیب رضی اﷲ عنہ نے یہی
جواب دیا تو اس بدبخت نے ایک ایک عضو کاٹ کر حضرت حبیب بن زید رضی اﷲ عنہ
کو شہید کردیا۔
حضرت ام عمارہ رضی اﷲ عنہا کو جب بیٹے کی شہادت کی خبر ملی تو کمال صبر و
تحمل کا مظاہرہ کیا۔ رسول اقدسﷺ نے دلاسہ دیتے ہوئے اس خاندان کے لیے خیرو
برکت کی دعا کی۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنے دور خلافت میں جب مسیلمہ کذاب سے
نبردآزما ہونے کے لیے لشکر روانہ کیا تو اس میں حضرت ام عمارہ رضی اﷲ عنہا
بھی شامل تھیں۔
اس وقت ان کی عمر تقریبا ًساٹھ سال تھی اور ان کے بیٹے عبداﷲ بن زید رضی اﷲ
عنہ بھی ہمراہ تھے۔ اس معرکے میں حضرت ام عمارہ رضی اﷲ عنہا کا ایک بازو کٹ
گیا۔ اس کے علاوہ تقریبا گیارہ زخم جسم پر لگے۔ مسیلمہ کذاب کو قتل کرنے
والوں میں حضرت ام عمارہ رضی اﷲ عنہا کے بیٹے عبداﷲ بن زید رضی اﷲ عنہ بھی
تھے۔ سپہ سالار حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ نے حضرت ام عمارہ رضی اﷲ عنہا
کے کٹے ہوئے ہاتھ کا علاج کرنے کے لیے تیل گرم کیا اور جلتے ہوئے تیل میں
زخمی بازو کو داغ دیا، جس سے خون رک گیا۔
حضرت ام عمارہ عمارہ رضی اﷲ عنہا کو اپنے بازو کے کٹ جانے کا اتنا غم نہیں
تھا جتنی خوشی مسیلمہ کذاب کے واصل جہنم ہونے کی تھی۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں ایک روز بہت عمدہ چادریں ان
کے پاس آگئیں۔ ایک چادر بہت ہی عمدہ اور بڑے سائز کی تھی۔ ساتھیوں نے مشورہ
دیا کہ یہ چادر عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید کو دے
دی جائے تو آپ رضی اﷲ عنہ نے ارشاد فرمایا یہ چادر اس خاتون کو دی جائے گی
جو صفیہ رضی اﷲ عنہا سے کہیں بہتر ہے۔ میں نے اس خاتون کی تعریف رسول اقدسﷺ
کی زبان مبارک سے سنی۔ اس کے بعد یہ چادر حضرت ام عمارہ نسیبہ بنت کعب رضی
اﷲ عنہا کی خدمت میں پیش کردی گئی۔ ایک روز حضرت ام عمارہ رضی اﷲ عنہا نے
رسول اقدسﷺ کی خدمت میں عرض کیا یارسول اﷲﷺ!قرآن حکیم میں اکثرو بیشتر
مردوں کا ہی تذکرہ ہوتا ہے۔ عورتیں بے چاری محروم رہتی ہیں، تو یہ آیت نازل
ہوئی:
''بلاشبہ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، اطاعت
گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، صابر
مرد اور صابر عورتیں، اﷲ کے آگے جھکنے والے مرد اور اﷲ کے آگے جھکنے والی
عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقات دینے والی عورتیں، روزے رکھنے والے
مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد
اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اﷲ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور عورتیں
اﷲ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر تیار کررکھا ہے۔''
حضرت ام عمارہ رضی اﷲ عنہا صحابیات میں اعلیٰ درجے پر فائز تھیں۔ غزوہ احد
میں جب گھمسان کی لڑائی ہورہی تھی، رسول اﷲﷺ نے حضرت ام عمارہ رضی اﷲ عنہا،
ان کے خاوند اور دونوں بیٹوں کی جاں نثار کا انداز دیکھتے ہوئے یہ ارشاد
فرمایا:
''اﷲ تم پر رحم کرے اے خاندان''۔
ام عمارہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کی یا رسول اﷲ دعا کیجئے کہ اﷲ ہمیں جنت میں
آپ کا ساتھ نصیب فرمادے تو آپﷺ نے یہ دعا کی:
''الہی ان سب کو جنت میں میرا رفیق بنادینا''۔
اﷲ ان سے راضی اور وہ اپنے اﷲ سے راضی۔
سبحان اﷲ ،اﷲ اکبر یہ تھی وہ مبارک ہستیاں جن پہ عرش والے کو بھی ناز تھا
اور انہیں دنیامیں ہی فرش والے (نبی کریم ﷺ)کی زبان سے جنت کی بشارتیں
سنادیں ۔اﷲ پاک ہمیں بھی ان کے مبارک نقش قدم پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے
(آمین) |