اللہ تعالی ٰ خالقِ کا ئنات ہے۔انسان اللہ تعالی ٰ کی
بہترین تخلیق اور اشرفُ المخلوقات ہے۔
اللہ تعالیٰ کے با برکت اسماء میں سے تین ایسے اسمائے حُسنہ ہیں جن کے معنی
ہر ذی شعور کو معلوم ہیں۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے زیادہ تر مسلمان
اللہ تعالیٰ کے ان اسمائے حسنہ کے معنی بہ خوبی جاننے کے باوجود نا فرمانی
ء پروردگار کے مرتکب قرار پا تے ہیں۔بے شک اللہ تعالی ٰ "سمیع" یعنی ہر
آواز سُننے والے ہیں مگر ہم کسی قدر بے راہ روی کا شکار ہیں کہ غیبت اور
پُر اسرار منصوبہ بندیوں کو اپنا شُعار بنا بیٹھے ہیں۔بے شک اللہ تعالیٰ تو
اُن آوازوں کو بھی بخوبی سُنتا اور سمجھتا ہے جن کے کو ئی معنی نہیں ہو تے
یعنی وہ انسانی ارادوں کی آواز بھی بخوبی سُنتا ہے اور اس حقیقت کو جاننے
کے باوجود انسان ان منصوبہ بندی میں اپنے ناپاک ارادوں کو بھی شامل کرتا
چلا جا تا ہے۔مفادات کیحصول کی خاطر وہ اپنی ذات سے کئی ایسے وعدے کر لیتا
ہے جو کسی دوسرے شخص کے تحفظات کی موت ثابت ہو تے ہیں۔کسی بے بس انسان کو
کودُنیاوی آسائشوں گھر،زمین،دولت،رتبوں کے سراب دکھا کروہ دراصل اپنے
مفادات کا تحفظ کر رہا ہو تا ہے جب کہ اپنے ارادوں کی منزل کو ہمیشہ مدِ
نظر رکھتا ہے۔بے شک اللہ تعالیٰ یہ سب دیکھ رہا ہو تا ہے کیونکہ وہ "بصیر "
ہے۔وہ انسانی مُسکراہٹ اور خندہ پیشانی کی اُوٹ میں چھُپی مخاصمت اور
منافقت سے چنداں بے خبر نہیں ہو تا مگر دورِ جدید کا مسلمان (تمام مسلمان
نہیں) اپنی معاشرتی اداکاری کی لا زوال منظر کشی کا کو ئی موقعہ ہاتھ سے
جانے نہیں دیتا۔آنے والے ہر پل اور ہر کل میں اُسے محض اپنی ذاتی ترقی،بے
بُنیاد انا پرستی،خام خیالی کی بنجر زمین پر بنی عزت و احترام کی بنی
کھوکھلی عمارت اور سنگِ گراں کی ماننداکڑی گردن کے زعم میں اس قدر مست ہو
جا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے "علیم" ہو نے کا شاید وہ "شاہد" نہیں بننا
چاہتا۔دورِ جدیدکے مسلمانوں (تمام مسلمان نہیں) کا یہ رویہ کس قسم کے ایمان
کی نشانی ہے؟اخلاقی اقدار کو محض ہسپانیہ کے کُتب خانوں میں ہی کیوں مُقید
کر دیا گیا ہے؟انسان اپنے اشرف المخلوقات ہو نے پر فخر کیوں محسوس نہیں
کرتا؟ کیا جانوروں کی تقلید کو ہی افضل سمجھا جاتا رہے گا؟ان تمام سوالات
کے جوابات کی تلاش ہی انسان اور سچے مسلمان کی تلاش ہے۔ضرورت صرف خلوصِ نیت
کی ہے۔بے شک اللہ تعالی اس تلاش کا پتہ جانتا ہے کیوں کہ وہ سُننے
والا،دیکھنے والا،اور جاننے والا ہے۔ |