لڑکیوں کے محض گھر گرستی اور گڑیوں سے کھیلنے کا زمانہ
اگرچہ پرانا ہو گیا اور ہمیں کرکٹ، ہاکی، فٹ بال اور اتھیلیٹکس جیسے کھیلوں
میں لڑکیاں نہ صرف حصہ لیتی بلکہ کامیابی کے جھنڈے گاڑتی نظر آتی ہیں۔ تاہم
اب بھی کئی کھیل ایسے ہی جن کا نام آتے ہیں لوگ انہیں صرف لڑکوں کا شغل
سمجھتے ہیں۔
ایسا ہی ایک کھیل ویڈیو گیمنگ کا ہے۔ لیکن اسلام آباد کی رہائشی سعدیہ بشیر
نے نہ صرف اس شوق کو اپنایا بلکہ نئے انداز اور نظریہ کے ساتھ ویڈیو گیمز
بنانا بھی شروع کیا۔
|
|
بچپن میں بھائیوں کے ساتھ جا کر ویڈیو گیمز کھیلنے کی شوقین سعدیہ بشیر کا
تجسس اس وقت بڑھا جب انھوں نے یہی گیمز ایک سہیلی کے کمپیوٹر پر کھیلیں۔
'مجھے بہت دلچسپی ہوئی کہ کپمیوٹر کو جاننا چاہیے۔ مجھے یہ ایک جادوئی مشین
لگی۔'
اس جدید مشین کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے تجسس میں انھوں نے
والدین سے ضد کر کے اپنا سکول چھوڑا کیونکہ وہاں کمپیوٹر کی تعلیم نہیں دی
جاتی تھی۔ والدین نے ان کا شوق اور پڑھائی میں لگن دیکھ کر ان کا ساتھ دینے
کا فیصلہ کیا۔
'میں نے 13 سال کی عمر سے کمپیوٹر پروگرامنگ شروع کی۔ چونکہ میری کمپیوٹر
میں دلچپسی ویڈیو گیمز کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی اس سے لیے میں نے اسے بھی
ساتھ ساتھ جاری رکھا۔'
کالج میں بھی اچھے تعلیمی نتائج کے بعد انھوں نے اسی مضمون میں گریجویشن
کرنے کا فیصلہ کیا تو انہیں احساس تھا کہ ان کے مالی حالات اس کے متحمل
نہیں ہو سکتے۔
|
|
سعدیہ کے بقول 'میرے لیے یہ ایک کافی مشکل فیصلہ تھا کیونکہ مجھ سے پہلے
میرے خاندان میں کوئی بھی لڑکی یونیورسٹی نہیں گئی تھی۔ اس کے علاوہ مالی
حالات کی وجہ سے ویسے بھی ہمارے معاشرے میں لوگ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کی
تعلیم پر ہی سرمایہ لگاتے ہیں۔'
ایسے میں تعلیمی ادارے نے ان کی قابلیت کے پیشِ نظر انہیں سکالر شپ حاصل
کرنے کا موقع دینے کا یقین دلایا۔ سعدیہ نے اپنی قابلیت سے ہایئرایجوکیشن
کمیشن کی جانب سے سکالر شپ حاصل کی اور گریجوئیشن مکمل کی۔
'دورانِ تعلیم مجھے کمپیوٹر گرافکس کے شعبے نے کافی متاثر کیا۔ میں نے وہیں
سے ویڈیو گیمز بنانے کا آغاز کیا۔ میرے فائنل ایئر کا پراجیکٹ بھی ایک ایسی
گیم تھی جس میں کینسر کے مریض اپنے جسم میں موجود کینسر زدہ خلیوں کو تلاش
کر کے اسے ختم کرتے ہیں۔'
یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جو کینسر کے مریضوں کو اپنی بیماری سے لڑنے کے لیے
تحریک دیتا تھا۔
سعدیہ کا کہنا تھا 'اس سے پہلے ویڈیو گیم میرے لیے محض تفریح کا ذریعہ تھی۔
لیکن اس تحقیقی منصوبے کے بعد مجھے گیمز کا وہ مختلف پہلو نظر آیا اور میں
نے اسی طرز پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔'
|
|
پاکستان میں ویڈیو گیمز بنانے سکھانے والے کسی ادارے کی عدم موجودگی کی وجہ
سے سعدیہ نے اپنے شوق کے لیے ڈیڑھ سال تک ویڈیو گیم انڈسٹری میں مختلف
ملازمتیں کیں لیکن انہیں لگتا تھا کہ جو وہ کرنا چاہتی ہیں وہ نہیں ہو پا
رہا۔
'مجھے احساس ہوا کہ جو میرا خواب ہے کہ اپنی گیمز کیسے بنائی جاتی ہیں اسے
کیسے سیکھا جائے؟ اس لیے میں نے اپنے ماسٹرز کا تھیسیز شروع کیا۔ اور یہ
جاننے کی کوشش کی کہ ویڈیو گیم بنانے میں کیا غلطیاں کی جاتی ہیں اور کیا
کارآمد چیزیں ہیں۔'
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سعدیہ کو خیال آیا کہ جو کچھ انھوں نے تعلیم
اور تحقیق سے سیکھا ہے یہ سب اس فیلڈ میں آنے کے خواہشمند کئی نوجوانوں کو
سیکھنے کے لیے کہیں بھی میسر نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنی ملازمت ترک کر
کے 'پکسل آرٹ اکیڈمی' کے نام سے ایک ادارہ شروع کیا جہاں وہ نوجوانوں کو
ویڈیو گیمز بنانے کی تربیت دیتی ہیں۔
سعدیہ کا کہنا ہے کہ 'پاکستان میں گیمز کی صنعت میں گیم ڈیزائن کا عنصر
موجود نہیں ہے۔ لوگوں کے پاس خیالات تو بہت اچھے اچھے ہیں لیکن انہیں اچھی
گیمز میں کیسے ڈھالیں یہ ہنر نہیں ہے۔ یہی چیز ہم اپنے طالب علموں کو
سکھاتے ہیں۔'
|
|
'گیمز بنانا کسی خاص تعلیم یا صلاحیت رکھنے والوں کا ہی کام نہیں۔ ہم یہ
بتاتے ہیں کہ یہ کام کوئی بھی کر سکتا ہے۔ آپ کی تعلیم کوئی بھی ہو حتیٰ کہ
سکول کے طالبِ علم یا ایک خاتونِ خانہ بھی گیمز بنا سکتی ہیں۔'
سعدیہ بشیر بین الاقوامی فورمز کے ساتھ مل کر ویڈیو گیم بنانے کے عمل کے
فروغ کی کوشش بھی کر رہی ہیں۔
'ہم ویڈیو گیم کے ہیکا تھانز کرواتے ہیں جس میں لوگوں موقع دیا جاتا ہے کہ
وہ کچھ دن یا کچھ گھنٹوں میں اپنے خیالات پر مل کر گیمز بنائیں۔'
'ہماری ایک ہیکاتھان کانام 'گیم ایمپیکٹ جیم' ہے جس میں ہم ایسی گیمز
بنواتے ہیں جو کسی نہ کسی معاشرتی مسئلے کے بارے میں ہوتی ہے اور اس کے حل
تجویز کرتی ہے۔ گذشتہ برس ہم نے پانی کی آلودگی کے موضوع پر گیمز بنائیں۔'
سعدیہ بشیر کا خیال ہے کہ ویڈیو گیمز انڈسٹری کے ذریعے ہم پاکستان کی
تہذیب، فن، موسیقی اور اقدار کو دنیا میں متعارف کروایا جاسکتا ہے۔
|