آج کا دور مصروفیت سیمعنون ہے ۔مسابقت کی غیر صحت مند دوڑ
میں خواہ چھوٹا ہویا بڑا ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی تگ و دو
میں لگا ہے۔ عدیم الفرصتی کے اس دور میں خاندان کے پورے افراد کو اگر
اکٹھاہوکر چندیوم راحت و فرصت اور خوشی و مسرت سے بسر کرنے کا موقع حاصل
ہوجائے تو یہ کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ ہر سال گرمائی تعطیلات
جہاں طلبہ، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے لیے نوید مسرت و خوشیوں کا شادیانہ
ہوتے ہیں وہیں والدین کی ذمہ داریوں میں یہ ایک بڑے اضافے کا سبب بن جاتے
ہیں۔گرماکی تعطیلات میں طلبہ کو با مقصدسرگرمیوں میں مصروف رکھنا والدین کی
ایک اہم ذمہ داری ہے۔ عام دنوں میں اسکول کی روز مرہ نصابی سرگرمیوں،
تعلیمی مصروفیات اوروقت کی قلت کی وجہ سے والدین بچوں کی دینی و دنیوی
تعلیم و تربیت کی سلسلے میں خو د کو مجبور محسوس کرتے ہیں۔لیکن گرماکی
تعطیلات والدین کو بچوں کی دینی و دنیوی تربیت کا ایک سنہری موقع فراہم
کرتی ہیں۔ مبسوط و منظم منصوبہ بندی کے ذریعہ تعطیلات میں والدین بچوں کی
اصلاح ،کردار اور شخصیت سازی کی عمدہ کوشش کرسکتے ہیں۔ گرمائی تعطیلات کا
آغاز ہوچکا ہے ۔گرمی کے قہر سے بچے دن بھر گھروں میں محبوس ہوکر آوٹ ڈور
سرگرمیوں میں حصہ لینے سے قاصر ہیں۔ موسمی حالات کے پیش نظر والدین ایسا
منصوبہ ترتیب دیں جو بچوں کو آؤٹ ڈور اور ان ڈور سرگرمیوں میں حصہلینے میں
معاون ثابت ہوں۔والدین چھٹیوں میں بچوں کے روز مرہ معمولات اورغذا میں
توازن برقرار رکھیں تاکہ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشو ونما بہترطریقے سے
ہوسکے۔چھٹیوں میں اگر طلبہ کی نگرانی نہ کی جائے تو وہ منفی تفریحی
سرگرمیوں کی جانب مائل ہوجاتے ہیں ۔ اسی لئے والدین بچوں کی دینی تعلیم کی
منصوبہ بندی پر خصوصی توجہ دیں ٹی وی اسکرینس اور انٹر نیٹ پر وقت ضائع
کرنے سے باز رکھیں۔ اﷲ تعالیٰ نے بچوں کو بہت ساری صلاحیتوں سے نوازا ہے،
ان کی صلاحیتوں کو صحیح راہ میں لگانا اساتذہ اور والدین کی اہم ذمہ داری
ہے۔
ماہرین تعلیم و نفسیات کے مطابق طویل معیادی چھٹیوں میں بچوں کی روٹین خراب
ہو جاتی ہے او ر وہ ا سکول نہ جانے کی وجہ سے اکثر صبح دیر تک سوتے رہتے
ہیں۔چھٹیوں کے دوران والدین کی جانب سے برتی جانے والی لاپرواہی کا خمیازہ
معصوم طلبہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔بعض والدین چھٹیوں کو صرف آرام کا وسیلہ سمجھ
کراسے ضائع کردیتے ہیں۔چند والدین بچوں کی شرارتوں ،شورو غل یا پھر دیگر
وجوہات کی وجہ سے بچوں کو کسی اکیڈیمی یا ٹٹوریل میں داخل کرتے ہوئے خود کو
بری الذمہسمجھتے ہیں۔ایسی روایتی سرگرمیاں بچوں کے لئے اضمحلال کاسبب ہوتی
ہے۔ ماہرین نفسیات و تعلیم کے نزدیک اس طرح کافیصلہ بچوں کی تخلیقی ،ذہنی و
جسمانی نشوونما کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے۔چھٹیوں کی موثر و منظم منصوبہ بندی
سے بچوں کی ذہنی، جسمانی اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ بخشا جاسکتا
ہے۔تعطیلات میں نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں بچوں میں قائدانہ صلاحیتوں کو
پروان چڑھانے میں معاون ہوتی ہیں۔ذیل میں چند ایسی تجاویز پیش کی گئی ہیں
جن پر عمل پیرا ہوکر طلبہ تعطیلات سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ اپنے فاضل وقت
کو کارآمد طریقے سے گزارتے ہوئے تعطیلات سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا پائیں گے۔
تنظیم وقت کی تربیت؛۔ تعطیلات میں بچوں کی تربیت کا پہلا مرحلہ شب و روز کے
نظام الاوقات کا تعین ہے۔ والدین بچوں کی عمر، تعلیم اور مصروفیات کو مدنظر
رکھتے ہوئے بچوں کی مشاورت سے ان کے سونے جاگنے کے اوقات مقرر کریں۔
بچو ں کی صلاحیتوں کا جائزہ اور لائحہ عمل ؛۔گرمیوں کی تعطیلات میں والدین
بچوں کی تعلیمی کمزوریوں کو کم سے کم کرنے کے لیے موثر کردار ادا کر سکتے
ہیں۔ بہتر منصوبہ بندی کے لیے والدین اساتذہ سے مل کر بچوں کی کمزوریا ں
معلوم کریں اور اسے دور کرنے میں معاون مشورے حاصل کریں۔بچوں کی گزشتہ
تعلیمی کیفیت کا جائزہ لیں۔ان کی خوبیوں اور خامیوں کی فہرست تیار کریں اور
انھیں دور کرنے کے لئے جامع منصوبہ بندی کریں۔ایسی خامیاں جن کو دور کرنے
کے لئے زیادہ وقت مطلوب ہوتا ہے تعطیلات انھیں دور کرنے میں کارآمد ثابت
ہوتی ہیں۔
آموختہ ؛۔تعلیمی نفسیا ت میں آموختہ و اعادہ ( Law of Repeatation)کو بہت
زیادہ اہمیت حاصل ہے اسی لئے طلبہ کو گر ما کی چھٹیوں میں بھی تعلیمی
سرگرمیوں کے ساتھ منسلک رکھنا بہت ضروری ہوتاہے تا کہ وہ چھٹیوں سے پہلے
پڑھائے گئے اسباق چھٹیوں کے دوران اور بعد میں بھی یاد رکھ سکیں۔
دینی تعلیم کا اہتمام؛۔ دینی تعلیم کا حصول وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ گر
ما ئی دینی کلاسس سے بھر پور فائدہ اٹھا ئیں ۔ قریبی مسجد یا مدرسے میں
جہاں صباحیہ (صبح کا مدرسہ) یا مسائیہ (شام کا مدرسہ) تعلیم کا انتظام ہے
وہاں بچوں کو شریک کرتے ہوئے ناظرہ قرآن پڑھانے کا بندو بست کریں یا خود
پڑھائیں ۔ قرآن پاک سیکھانے کی مناسب منصوبہ بندی کریں۔قرآن پاک کی تلاوت
سے نہ صرف خیرو برکت حاصل ہوتی ہے بلکہ ہماری زندگی میں ایک خوش گوار
انقلاب بھی رونما ہوتا ہے۔موسم کی شدت کے پیش نظر بچوں کی صحت کا خیال
رکھنا اور انھیں گرمی اور دھوپ سے بچانا بھی بے حد ضروری ہے۔اس کے لیے دن
کے اوقات میں ان ڈور سرگرمیاں ترتیب دیں اور سہ پہر میں کھیلنے کودنے باہر
نکلیں۔گرمی میں مشروبات اور سادہ غذا کا شیڈول ترتیب دینا بھی والدین کی
ذمہ داری ہے۔ رمضان کا مبارک مہینہ بھی اس سال چھٹیوں میں آ رہا ہے۔ والدین
بچوں کو روزے رکھنے، واعظ و نصیحتیں سننے، نماز یں پڑھنے، ذکر و اذکار
کرنے، پاک صاف اور با وضو رہنے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور ثواب کمانے
کی ترغیب دیں۔ بچوں کو احادیث، آیات، ماثورہ دعاؤں کا نصاب تیار کر کے دیں
اور انھیں باقاعدگی سے زبانی یاد کرنے کی تاکید کریں۔ روزانہ کی بنیادوں پر
اس کا جائزہ لیتے رہیں۔ اس سلسلے میں والدین کوتاہی سے کا م نہ لیں۔ تفریح
اور دعوتوں کے نام پر اولاد کو دین سے دور نہ کریں۔ والدین اگر دلچسپی کے
ساتھ روزانہ کے نظام الاوقات پر کاربند رہیں تو اس سے بچوں کو بہت فائدہ
ہوگا ورنہ والدین کی بے پروائی کی وجہ سے طلبہ سستی اور کاہلی کا شکار ہوکر
اپنی قیمتی چھٹیاں گنوا دیں گے ۔بچوں میں قرآن مجید سے قلبی لگاؤ اور محبت
پیدا کرنے کے لیے والدین روزانہ بچوں سے تلاوت کروانے کے ساتھ خود بھی قرآن
مجید کی تلاوت کریں، چاہے دو آیات ہی کیوں نہ ہوں اور جمعہ کے دن خاص طور
پر سورہ الکہف کی تلاوت کر کے سعادت و برکت حاصل کریں۔
دینی سمر کیمپس؛۔اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے اور وقت و عمر کی قدردانی کرتے
ہوئے اولاد کی تربیت کی فکر کریں۔ لایعنی اور فضول مشغلوں میں ان کے اوقات
کو ضائع کرنے کے بجائے دینی تعلیم و تر بیت کا مستقل انتظام کریں اورموسم
گرما میں چھٹیوں کے پیش ِ نظر چلائے جانے والے’’سمر کلاسس‘‘ اور ’’ سمر
کیمپس‘‘سے بھر پور فائدہ اٹھا کر قرآن و سنت کی تعلیمات اور دین کی بنیادی
معلومات حاصل کرنے کا راستہ ہموار کریں۔ انشاء اﷲ چھٹیوں کا بھی صحیح
استعمال ہوگا اوروالدین بھی اولاد کی تعلیم وتربیت میں کوتاہی کے گناہ سے
محفوظ ہوجائیں گے۔ قرآن فرماتا ہے ’’ائے ایمان والو! اپنے آپ کو او ر اپنے
گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن انسا ن اور پتھر ہوں گے۔(التحریم
:6)حضرت عمر ؓ نے پوچھا ’’ یا رسول اﷲ ﷺ اپنے آپ کو تو جہنم سے بچاناسمجھ
میں آگیا لیکن گھر والو ں کو کیسے بچائیں تو آپ نے فرمایا کہ جس سے تم کو
منع کیا گیاان کو منع کرواور جس کاتم کو حکم دیا گیا ہواس کا انھیں بھی حکم
دو۔اسی طرح آپ کا ارشاد ہے کہ: قیامت کے دن سب سے سخت عذاب میں وہ ہوگا
جواپنے گھر سے بے خبر رہا۔(روح المعانی:28/156)
تعلیمی سمر کیمپس؛۔ اسکولوں کی جانب سے منعقد کردہ سمر کیمپس بھی طلبہ کو
موسم گرما کی چھٹیوں میں نصابی و غیر نصابی سر گرمیوں میں مصروف رکھنے میں
معاون ہوتی ہیں۔بچوں کودوسرے بچوں سے میل جول بڑھانے ،آپس میں اکٹھے وقت
گزارنے اورایک دوسرے سے سیکھنے میں سمرکیمپس مددگار ہوتے ہیں ہر بچے میں
قدرت نے کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہوتی ہے اس خوبی کو نکھارنے کیلئے ان کی
حوصلہ افزائی ضروری ہوتی ہے۔سمر کیمپس مختصر وقت ( دو یا تین گھنٹوں) پر
مبنی اپنی سر گرمیوں کے ذریعے طلبہ میں خوش خطی(Hand Writing) ،تحریری و
تقریری مہارتوں کو فروغ دیتے ہیں۔ اخبارات ،میگزین اور کتب بینی کے مشاغل
اور دیگر معلوماتی پروگرامس ان سمر کیمپس کا خا صہ تصور کیئے جاتے ہیں۔
نماز پنج گانہ کی تربیت ؛۔بچوں کو نماز پنج گانہ کا عادی بنانے میں تعطیلات
بہت کارآمد ہوتی ہیں۔ والدین بچوں کو نماز کی تاکید کی بجائے ان کے ساتھ
ادائیگی نماز کا معمول بنائیں تا کہ بچوں میں نمازکی عادت پختہ ہو سکے۔بچوں
کے دن کی شروعات نمازفجر سے کریں۔فجرکے بہترین اور بابرکت وقت کو بچوں کی
نیند کی نذر نہ کریں۔ بچوں کو وقت پر اُٹھنے اور ادائیگی نماز پر حوصلہ
افزائی کے لئے گاہے بگاہے انعام سے بھی نوازیں۔ جب صبح خیزی کی عادت بچوں
میں پختہ ہو جائے توانھیں فجر کے وقت باری باری دوسروں کو بیدار کرنے کی
ذمہ داری پر مامور کریں جس سے ان میں احساس ذمہ داری اور ایک دوسرے کے
درمیان مروت اور نیکی کے تعاون کا جذبہ پیدا ہوگا۔ والد کا بیٹوں کو
باجماعت نماز کاعادی بنانے کے لیے انہیں اپنے ساتھ مسجد لے کر جائے ،نماز
پڑھنے اور امامت کے آداب سکھائے۔
سیر و تفریح ؛۔بچوں کی صرف ضروریات ہی پورا کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ انہیں
وقت اور توجہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا والدین اپنی مصروفیات میں سے بچوں
کے لیے وقت نکال کر انہیں تفریحی مقامات کی سیر کرانے کے ساتھ ساتھ ایسے
مقامات کی بھی سیاحت کروائیں جن کے ذریعے انہیں اپنے ماضی اور تاریخ کا علم
ہو سکے۔ تاکہ تعطیلات میں بھی تعلیم سے ان کا لگاؤ برقرار رہے۔تعلیمی سیر
جیسے عجائب گھر، سائنس میوزیم اور تاریخی مقامات کی سیر و سیاحت سے طلبہ کو
سیکھنے اور راست مشاہدہ کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ بچوں کے ساتھ روزانہ کسی
پارک، تفریحی مقام، نہر کے کنارے یا ساحل سمندر پر تفریح کا پروگرام ترتیب
دیں۔ کھلی فضا،مناظر فطرت کے مشاہدہ کے علاوہ جسمانی اور ذہنی صحت پر
شاندار اثرات مرتب کرتی ہیں۔ خاص طور پر صبح کے وقت کلیوں کا چٹکنا اور
پھول بننا، پرند وں کی چہچہاہٹ، سورج و چاند کا طلوع و غروب ہونا،، ستاروں
کا چمکناپوری کائنات کاآفاقی نظام فطرت بچوں کو اﷲ کے احکامات کی پیروی اور
پاسداری کے اصول سیکھاتے ہیں۔
آپسی محبت کو فروغ دینے کے کام ؛۔بچوں کی تربیت کے لیے کچھ خاص پہلو ایسے
ہوتے ہیں جن پر تعطیلات میں ہی توجہ دی جا سکتی ہے مثلاً باہمی محبت میں
اضافے کے لئے چھٹیوں میں سب اہل خانہ ناشتہ اور دونوں وقت کا کھانا(ظہرانہ
و عشائیہ) اکٹھے کھانے کا معمول بنائیں۔ معلومات پر مبنی ٹیلی ویژن
پروگرامز سب گھر والیمل کر دیکھیں۔ تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے بچے گھر کے
کاموں میں نہ تو دلچسپی لیتے ہیں اور نہ ہی گھریلو ذمہ داریوں میں زیادہ
اہم کردار ادا کر پاتے ہیں۔ لہذا تعطیلات کا فائدہ اٹھا کرانہیں اپنے کمرے
کی صفائی، مہمانوں کی خاطر تواضع اور استعمال کی دیگر اشیاء کی دیکھ بھال
سکھائی جا سکتی ہے۔ سماجی بہبود کے حوالے سے کوئی نہ کو ئی ذمہ داری بچے کو
ضرور دی جائے مثلاً چھوٹے بھائی بہنوں کا خیال ،گھر کے بزرگ جیسے
دادا،دادی،نانا،نانی کی دیکھ بھال ان کے ساتھ وقت گزارنا، ان کی ضروریا ت
جیسے غذا پانی کو وقت پر دینا انہیں اخبار پڑھ کر سناناوغیرہ ۔یہ سنہری کام
بچوں کی تربیت کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ رشتے داروں سے میل جول اور
ملاقات کے آداب سکھانے کے لیے انہیں رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے لے کر
جائیں۔ والدین کے اس کام سے بچوں میں خونی رشتوں کی اہمیت، صلہ رحمی اور
بھائی چارے کے جذبات پروان چڑھیں گے۔والدین بچوں کی دوستیوں اور ان کی صحبت
پر نظر رکھیں اور ان کی جانچ کے لیے کبھی کبھار ان کے دوستوں کو اپنے گھر
بلائیں، ان سے ملیں، ان کے ساتھ کچھ وقت گزاریں، ان کی عزت کریں تاکہ ان کا
اعتماد بڑھے۔ بچوں کے دوستوں کے گھر والوں سے بھی تعلقات بہتر رکھیں۔لیکن
اگر والدین ان کے گھر کے ماحول سے مطمئن نہیں تو بچے کو بُرا بھلا نہ کہیں
بلکہ حکمت و تدبر سے کام لے کر اپنے بچوں کو ایسی دوستی سے دور رکھیں تاکہ
والدین اور بچوں کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ٹھیس نہ پہنچے۔
کراش کورسس؛۔چھٹیو ں میں بچوں کو با مقصد علمی، ادبی اور تفریح سر گرمیوں
میں مصرو ف رکھنا ضروری ہوتاہے۔ مطا لعے کی عادت پیدا کر نے کے لیے بچوں کو
لائبریری کی رکنیت دلائی جائے۔ لینگویج امپرومنٹ کراش کو رسز کے ذریعے زبان
دانی کی مہارتوں کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ کمپیوٹر میں مہارت پیدا کرنے کے
لیے مختصر مدتی کراش کورسز معاون ثابت ہوتے ہیں۔ خوشخطی (Hand Writing)
امپرومنٹ کلاسز کے ذریعے بچوں کی لکھائی کو دلکش بنایا جاسکتا ہے۔ تعطیلات
کے دوران مختلف مضامین پر مبنی کراش کورسس طلبہ کے لئے سود مند ثابت ہوتے
ہیں۔کراش کورسس طلبہ کی ذہنی اور تعلیمی صلاحیتوں میں بہتر ی پیدا کرتے
ہیں۔ڈاکومینٹری فلمیں اور تاریخی دستاویزات کے مطالعے اور مشاہدے سے طلبہ
میں تجسس ،ذوق ا ور اشتیاق کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے ۔
عارضی وجزو وقتی ملازمت؛۔ تعطیلات کے دوران ہائیر سیکنڈری اور گرایجویشن کے
طلبہ کوئی جزو وقتی نوکری حاصل کرتے ہوئے نہ صرف اپنی معاشی ضروریات کی
تکمیل کرسکتے ہیں بلکہ تعلیمی اداروں سے باہر کی دنیا کا عملی مشاہدہ کرنے
کا بھی انھیں راست تجربہ حاصل ہوتا ہے۔اگر کسی قسم کی معاشی تنگی نہ بھی ہو
تب بھی طلبہ دیڑھ دو ماہ کی تعطیلات میں ملازمت کرتے ہوئے کام اور پیشے کی
اہمیت و افادیت کے متعلق عملی معلومات وتجربات حاصل کرسکتے ہیں۔
رضاکارانہ خدمات ․۔طلبہ تعطیلات کے دوران رضاکارانہ طور پر فلاح و بہبود کی
مختلف سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے اپنے فاضل وقت کا بہتر استعمال کرسکتے ہیں۔
رضاکارانہ طور پر مختلف فلاحی کام انجام دینے سے طلبہ میں خدمت خلق کا جذبہ
پروان چڑھتا ہے اور طلبہ آگے چل کر معاشرے کی تعمیر میں اپنا گرانقدر کردار
پیش کرنے کے لائق ہوجاتے ہیں۔محتاجوں ،یتیموں ،غریبوں اوریا بزرگوں کی خدمت
سے طلبہ میں انسانی اقدار پروان چڑھتے ہیں اور انھیں سماج میں بسنے والے
مختلف افراد کی ضرورتوں کا علم بھی حاصل ہوتا ہے۔
نئی مہارتیں سیکھنا؛۔ چھٹیوں میں والدین بچوں کو مختلف ہنر و مہارتیں سکھا
نے کی کوشش کریں۔ مثلاً خوش خطی، مضمون نویسی، تجوید، آرٹ کے کام، بچیوں کو
سلائی کڑھائی، کپڑوں کی مرمت، مہندی کے ڈیزائن وغیرہ۔ گھر میں اگر لان یا
کیاری کی جگہ ہو تو والدین بچوں کو پودے اُگانے اور ان کی نگہداشت کرنا بھی
سکھا سکتے ہیں۔ٹوٹی ہوئی اشیا جیسے خراب کمپیوٹر یا میز کی مرمت و درستگی
وغیرہ سے طلبہ پیشے کی عظمت و احترام سے واقف ہوتے ہیں۔آن لائین کورسس بھی
طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں معاون ہوتے ہیں۔ تعطیلات کے دوران
طلبہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرتے ہوئے عملی تجربہ حاصل کرسکتے ہیں۔
جو ان کی آنے والی زندگی میں یقینا کارآمد ثابت ہوگا۔یہ سرگرمیاں طلبہ کو
پیسے کمانے بچانے اور انھیں مناسب طریقے سے خرچ کرنے کی تربیت فراہم کرتی
ہیں۔اس کے علاوہ طلبہ باغبانی ،فنون لطیفہ جیسے آرٹس ،ڈرائنگ سنگ تراشی
،نقاشی فوٹو گرافی و دیگر فنون کو سیکھتے ہوئے بھی اپنی تعطیلات کو پر لطف
اور کارآمد بنا سکتے ہیں۔اپنے ذخیرہ الفاظ (Vocabulary) میں اضافے کے ذریعے
طلبہ لفظیات کے بہتر استعمال کی مہارت سے خود کو آراستہ کرسکتے ہیں۔یہ
مہارت نہ صرف طلبہ بلکہ ہر انسان کی کامیابی کے لئے ضروری تصور کی جاتی ہے۔
تعطیلات کا صحیح استعمال کرتے ہوئے طلبہ اپنی تحریری صلاحیتوں کو بہتر
بنانے کی کوشش کریں اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے کتابیں پڑھیں اور
مطالعہشدہ کتابوں سے اخذ کردہ اپنے تجربات کو قلم بند کرنے کی باقاعدہ مشق
کریں تاکہ تحریر میں پختگی اور بہتری پیدا ہوسکے۔چھٹیوں میں اچھی عادات کی
تشکیل و فروغ پر توجہ مرکوز کریں۔کامیابی فراہم کرنے میں مددگار کتابوں اور
مضامین کو مطالعے میں شامل رکھیں۔پڑھنے کی رفتار میں اضافہ کرنے والی
مہارتیں کو سیکھیں۔
کھیل کود کی صلاحیتوں کا فروغ ؛۔کھیل ا نسان کی ذہنی، جسمانی نشونما کے لئے
نہایت اہم ہو تے ہیں۔ کھیل انسان کو چاق و چوبند اور تندرست رکھتے ہیں۔
اسلامی نقطہ نگاہ سے کھیل بھی بامقصد ہونے چاہئے ، وقت کی بربادی کا سبب نہ
بنیں اور انسانی صحت و تندرستی کا وسیلہ ہوں۔ تیراندازی، تیراکی، نیزہ
بازی، کشتی ،کبڈی اور دوڑ جیسے کھیل انسان کی صحت کے لئے معاون ثابت ہوئے
ہیں۔کھیل چستی پھرتی پیدا کرنے کے علاوہ نظم و ضبط(ڈسپلن) اور قائدانہ
صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کھیل سے قوت حافظہ،
قوت برداشت اور طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور اعضاء و جوارح بھی مضبوطبنتے
ہیں۔تعطیلات میں بچے صحت مند کھیلوں کی جانب توجہ نہ کرتے ہوئے ٹی وی
دیکھنے انٹر نیٹ پر گیمز کھیلنے میں وقت ضائع کرتے ہوئے اپنی صحت کو برباد
کرلیتے ہیں مذکورہ مشغلے اخلاقی خرابی کا بھی ایک بہت بڑا سبب بنے ہوئے
ہیں۔
گھر بچے کی اولین درسگاہ ہوتی ہے بچوں کے متعلق فیصلے کرنے کا اختیار
والدین کو ہوتا ہے۔ گو آج کل کے معمولات بچوں کو خود سر بنا رہے ہیں۔ لیکن
والدین کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ بچوں کی شخصیت کی نشوونما میں
و الدین کااتنا ہی کلیدی کردار ہوتا ہے جتنا کہ استاد کا۔ اسکول و کالج میں
زیادہ بچے ہونے کی وجہ سے استاد ہر بچے پر پوری توجہ نہیں دے سکتا لیکن گھر
میں والدین تو بچے پر پوری توجہ دے سکتے ہیں کیونکہ بچے اسکول یا کالج میں
5 تا 8 گھنٹے گزارنے ہوتے ہیں جبکہ 16تا19گھنٹے وہ گھر میں بسرکرتے ہیں۔یہ
بات صرف چھٹیوں کی نہیں ہے بلکہ عام دنوں میں بھی بچے 16تا19گھنٹے گھر میں
گزارتے ہیں ۔والدین کی ذمہ داری ہے کہ 8 گھنٹے سونے کے نکال کر باقی وقت کو
اس طرح تقسیم کریں کہ عام دنوں میں بھی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے
ساتھ ساتھ بچوں کیلئے دینی تعلیم کا وقت بھی نکل آئے اور بچے نماز کے بھی
پابند ہوجائیں۔ نماز کی پابندی جہاں اﷲ کی خوشنودی و رضا کا سبب بنتی ہے
وہیں بچے نماز کے ذریعے ڈسپلن بھی سیکھتے ہیں۔ وقت سب سے بڑا سرمایہ ہے اگر
والدین یہ سوچ کر کہ بہت زیادہ گرمی ہے بچوں کو آرام کرنے دیں تو یہ ان کی
محبت نہیں بلکہ بچوں کے ساتھ دشمنی ہوگی۔ سخت ترین موسم میں بھی ہمارا دین
کسی کام سے ہمیں نہیں روکتا۔الغرض فرصت کے لمحات خصوصاً تعطیلات میں بچوں
کی تربیت پر توجہ مرکوز کرنا وقت کا اہم اور ناگزیر تقاضہ ہے۔دیڑھ ،دو ماہ
کی طویل چھٹیوں کے دوران والدین پیش کردہ نکات بالا کے ذریعے اپنے بچوں کی
بہترین تربیت کرسکتے ہیں۔ |