ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہار پبلک سروس کمیشن(بی پی ایس
سی)کے کارندوں/عملوں نے’ مُردوں سے شرط باندھ کر سونے‘ کا انتظام کرلیا ہے
۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں نہ وقت کی پروا ہے اور نہ ہی بے روزگاری کی مار
جھیلنے والوں کا احساس ۔حالانکہ یا درکھنے والی بات یہ ہے کہ ’مردے کو بیٹھ
کرر وتے ہیں اور روزی کو کھڑے ہوکر‘۔ گویا روزی کے لیے رونا، مردوں پر رونے
سے زیادہ اذیت ناک ہے۔ اس پس منظر میں وقفے وقفے سے بی پی ایس سی کی
سُگبگاہٹ گرچہ کبھی نظر بھی آتی ہے تو اس میں چونچلے درچونچلے کا معاملہ
چھپا ہوتا ہے۔
بی پی ایس سی کی تساہلی کے پیش نظر متعدد سوالات کیے جاسکتے ہیں۔بنیادی
سوال یہ ہے کہ آخر کمیشن کے ذریعہ بہار کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہونے
والی تقرری میں اس قدر تاخیر کیوں ہورہی ہے؟کوئی ساڑھے تین برس کے بعد بھی
اردو کے لیے انٹرویو کی تاریخ کیوں متعین نہیں ہوسکی۔ اور اردو کا معاملہ
اس قدر پیچیدہ کیوں ہوا کہ وقفے وقفے اردوں والوں کو ادھر ادھر چکر کاٹنے
کی نوبت آئی ۔ اس کے علاوہ ایک یہ سوال بھی اہم ہے کہ جن یونیورسٹیوں میں
2009یوجی سی ریگولیشن کے لحاظ سے ریسرچ ہورہے ہیں، وہاں کے پی ایچ ڈی
یافتگان کو غیر ضروری طور پر پریشان کیا جارہاہے؟یہاں پر ہم جے این یو کا
ذکر کررہے ہیں ۔کیوں یہ وہ اولین ادارہ ہے، جس نے یوجی سی 2009ریگولیشن کو
اپنے یہاں نافذ کیا ہے اور اس نے اپنی ویب سائٹ پر بھی اس کی طرح وضاحت
کردی ہے کہ 2009کے بعد ریسرچ میں داخل ہونے والے تمام تر طلبا پر مذکورہ
ریگولیشن کا نفاذ ہوتا ہے۔ اس کے بعد باوجود بی پی ایس سی نے غیر ضروری طور
پر یہاں کے پی ایچ دی ڈگری یافتگان کو یونیورسٹی انتظامیہ /سینٹر سے تصدیق
نامہ ارسال کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ایسے معاملات میں کم سے کم راقم کا ماننا
ہے کہ بی پی ایس سی( اوراس طرح کے دیگر اداروں کو بھی)براہ راست یونیورسٹی
سے رابطہ کرنا چاہیے یااس تعلق سے کوئی مجموعی لیٹر یونیورسٹی سے منگوا
لینا چاہیے، تاکہ ایک چھوٹے سے کام کے لیے سینکڑوں پی ایچ ڈی ڈگری یافتگان
کو پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے ۔
یوجی سی 2009 کے ضمن میں یہاں ایک بات اور بھی قابل توجہ ہے کہ بی پی ایس
سی نے Eligible امید واروں کی جو فہرست جاری کی ہے ، اس میں 1089 امیدواروں
کا نام ہے اور 1699امیدواروں کو Ineligibleقراردیا ہے۔سوال یہ ہے
کہEligibleوالی فہرست میں 1071 نمبر والے کے سامنے لکھا ہوا ہے کہNo NET,
Ph.D. With UGC Reg. 2009,P.G. in Urdu۔اس پر یہ بی پی ایس سی سے یہ سوال
ہوگا کہ 1071نمبر والے فرد نے کب اپنی یونیورسٹی سے لکھوا کر دے دیا کہ
انھوں نے 2009 یوجی سی ریگولیشن کے مطابق پی ایچ ڈی کی ہے ؟ دسمبر 2014میں
جب فارم بھرا گیا تھا تو اس وقت ایسی کوئی شرط نہیں تھی اور نہ ہی اس کے
لیے کوئی وضاحت تھی ۔ اس لیے یہ کہنا پڑے گاکہ 1071والے نے بھی ایسا کوئی
تصدیق نامہ جمع نہیں کیا ہوگا ۔ چنانچہ ان دنوں جس طرح جے این یو (یوجی سی
2009ریگولیشن کا اولین متبع ہے) کے پی ایچ ڈی یافتگان سے تصدیق نامہ مانگا
جارہا ہے ، اسی طرح ان سے منگوایا جاتا، مگر انھیں بآسانی Eligible قرار دے
دیا گیا اور جے این یو کے طلبا (جے این یو کی ویب سائٹ پر2009یوجی سی
ریگولیشن کی وضاحت کے باوجود)تصدیق نامہ بنوا نے پر مجبور ہیں ، جو میرے
لحاظ سے تعلیم یافتہ افراد کے لیے ہتک عزت جیسا ہے۔
اسی طرح بی پی ایس سی نے یہ بھی نوٹس جاری کیا ہے کہ Eligible امید وار
اپنی یونیورسٹی سے اپنے سبجیکٹ کے متعلق بھی تصدیق نامہ بھیجیں کہ انھو ں
نے کس سبجیکٹ میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ اس پر بھی سوال ہوتا ہے کہ جب اس کے
سامنے پی ایچ ڈی کیے ہوئے ایک فرد کی ایم۔ اے کی ڈگری ہے تو ظاہر اس نے
ماسٹر کے سبجیکٹ کی بنیاد پر ہی ریسرچ میں ایڈمیشن لیا ہوگا ۔ یہ کیسے ممکن
ہے کہ کوئی فرد ماسٹر کسی اور سبجیکٹ میں کرے اور پی ایچ ڈی کسی اور سبجیکٹ
میں ۔ اس کے علاوہ نیٹ کی ڈگریوں میں بھی یہ وضاحت کی ہوتی ہے کہ کس سبجیکٹ
میں نیٹ کوالیفائی کیا گیا ہے۔ اتنی وضاحت کے بعد بھی پی ایچ ڈی یافتگان کو
اپنی یونیورسٹی سے سبجیکٹ کے متعلق کوئی تصدیق نامہ بنوانا پڑ رہا ہے، جو
کہ کھلواڑ ہے۔
ریاست کی مختلف یونی ورسٹیوں اور Constituentکالجز میں 3364اسسٹنٹ پروفیسرز
کے عہدوں پر بحالی کے لیے 15؍ستمبر2014کو جو اشتہار ریاست کی مختلف زبانوں
کے اخبارات میں شائع ہوا تھا، وہ حکومت کی بدنیتی، متعلقہ محکمہ کی بے
توجہی اور انٹرویو کے عمل میں ناقابل برداشت تاخیر سے مضحکہ خیز بن گیا ہے۔
کبھی کوٹ کا معاملہ ، کبھی تصدیقات کا مسئلہ ، کبھی تاخیر کا سلسلہ ، ان
تمام معاملات نے حکومت کی بد نیتی واضح کردی ہے۔
ڈگریوں اور خاص طور سے مساوی ڈگریوں کے معاملے کو بھی بہت دنوں تک کھینچا
گیا ۔ مثلاً ، مدرسہ بورڈ کی مساوی ڈگریوں کو سی بی ایس سی نے منظوری دے دی
ہے۔ اس کے بعد باوجود بی پی ایس سی نے مدرسہ بورڈ ڈگری یافتگان کو پریشان
کیا ہے۔ اگر بی پی ایس سی کو مدرسہ بورڈ کی ڈگریوں پر کوئی شک تھا تو اسے
براہ ِ راست سی بی ایس ای سے ان ڈگریوں کے متعلق بات کرنی چاہیے تھی ۔ یہ
کیا تماشا ہے کہ بی پی ایس سی نے براہ راست ڈگری یافتہ کو پریشان کرنا شروع
کردیا تھا۔واضح رہے کہ 2010میں سی بی ایس ای نے ایک حکم جاری کیاتھا ، جس
کے مطابق بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ کے وسطانیہ کی ڈگری کو سی بی
ایس ای 8ویں ، فوقانیہ کو 10ویں اورمولوی کی سند کو12ویں کے مساوی تسلیم
کیاگیا ۔ چھتیس گڑھ مدرسہ بورڈ رائے پور اردو ادیب ، اردو ماہر ،اردو معلم
، ہائی اسکول مراسلاتی و فاصلاتی کو رس کو 10ویں اورادیب ہائر سکنڈری کو
12ویں درجہ کے مساوی تسلیم کیا گیا ۔ جہانتک مدھیہ پردیش کے مدرسہ بورڈ کا
تعلق ہے تو اردو ماہر اوراردو معلم کو 8ویں ، مولوی اورمادھیمک امتحان کو
10ویں اورعالم کو 12ویں کے برابر مانا گیا ۔اسی طرح اترپردیش مدرسہ تعلیمی
بورڈ کے منشی ومولوی کو 10ویں اورعالم وکامل کو 12ویں کے مساوی تسلیم کیا
گیا ۔(ضمنی طور پر یہ بات کہنی ہے کہ مختلف بورڈوں کے ایک نام کی ڈگریوں
میں یکسانیت نہیں ہے۔ سی بی ایس ای کے مطابق بہار مدرسہ بورڈ کی مولوی انٹر
مساوی ہے اور یوپی مدرسہ بورڈ کی مولوی دسویں کے برابر ہے۔ اس تضاد کو حل
کرنے کے لیے جہاں سی بی ایس ای کو سوچنا پڑے گا ، وہیں ملک کے مدرسہ بورڈ
کے افراد بھی غور وفکرکریں۔ ورنہ مساوی ڈگریوں کے نام پر بڑی سیاست ہوگی )۔اسی
طرح بی پی ایس سی نے 41سبجیکٹ کے لیے ہونے والے انٹرویو کی تاریخ میں بھی
منفی رویہ اپنا یا ہے۔ ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی نے تقریباً ایک برس قبل اس
تعلق سے ایک اخبار ی بیان دیا تھاکہ یہ بھی سمجھ سے بالاترہے کہ انٹرویو کے
عمل میں امیدواروں کی مجموعی تعداد کا اعتبار رکھا جارہا ہے۔ موضوع کا،یا
اپنی سہولت اور سیاسی پریشر کا۔ سب سے پہلے 48نمبر کی Vacancy یعنی میتھلی
سبجیکٹ کا انٹرویو کرایا گیا اور اب پھر پیچھے لوٹتے ہوئے 45نمبر کی
Vacancyانگریزی کے انٹرویو کا شیڈول جاری کیا گیا ہے۔ اور یہ بھی خبر گرم
ہے کہ اردو عربی، فارسی یعنی ساری مشرقی زبانوں کا انٹرویو سب سے اخیر میں
ہوگا۔ اس کی کیا وجہ ہے، حکومت اور متعلقہ محکمے کو اس کا معقول جواب دینا
چاہیے، یا یہ صرف حکومت وقت اور افسران کا تعصب ہے۔ الغرض بی پی ایس سی
سمیت ملک کی سلیکشن کمیٹیاں سست روی کی ایسی مثالیں پیش کررہی ہیں ، جو
تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ ایک مزاق ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈگری
یافتگان نہ صرف علمی سند حاصل کرتے ہیں، بلکہ وہی ڈگریاں ان کے لیے جگ
ہنسائی کا سامان بھی بنتی جارہی ہیں۔
|