یہ کیسا شوق چل نکلا ہے ۔۔۔۔۔
زمانے میں ہرًطرف اک ہی مقصد حٰٰٰیات دکھاً دیتا ہے ،وہ نا ملا تو میں مر
جا ؤں گی ،وہ نا ملی تو میں مر جاؤں گا ۔
ہمارے معاشرے کی سوچ بس یہیں تک ہی ناپید ہو کر رہ گئی ہے ۔اک نظر جو اپنے
ارد گرد گھماتی ہوں ہر جگہ یھی شوق دکھائی دیتا ہے ۔اتنی برُی کائنات میں
جینے کا مقصد صرف یھیں تک محدود تو نھی ہو سکتا ۔ ہم اپنی اس سوچ کو بدلتے
کیوں نھی ۔ دل منافقت سے بھر چکے ہیں اس سے باھر نکلنا بھی چاھیں تو اس
معاشرے نے اتنا جکر لیا ہے کے اس سے باہر کچھ دکھائی ہی نھی دیتا ۔ آج کل
ہر تیسرا شغص محبت میں دانستہ گرفتار ہے ۔کسی کو محبت میں ٹھوکر لگ گئی ہے
،کسی کا دل سخت زخمی ہے ،کوئی ڈپریشن میں چلا گیا ہے ،کوئی نفسیاتی مریض بن
چکا ہے، اور کوئی فقط دل بہلا نے میں مصروف ہے۔ یقین سے کہتی ہوں اج جس بھی
انسان کی پٹرتال کر لیں یا تو وہ محبت میں ٹھوکر کھائے ہوے گا ،یا دل شدید
زخمی ہو گا۔ اور آُپ سوچیں گے بہت بیبس ہے یھ بےچارہ شخص، کچھ لمحہ کیلیے
اپ کو اس پر ترس بھی آئے گا ،شاید سچی محبت کرتا تھا بےچارہ ۔لیکن زرا اک
لمحے کو سوچئے کیا یہ جزبہ اتنا عام ہے کے ہر دوسرے شخص میں نظر ائے ۔
ہمارا دور دور تک اس سے کوئی واستہ ہی نیہں ، معزرت کے ساتھ شاید کچھ کو
پٹرھتے ہوئے خاصہ ناگوار بھی گزرے کے “ہم محبت کا سھی مطلب ہی نہیں سمجھے“۔
اور کہیں بےنام محبتں حرص و حوس میں مشغول ہیں جنہیں وہ پاکیزہ احساس دے
رہے ہیں ۔
کیا ہم نے کبھی سوچا کے ہم جو ہر وقت اپنے معاشرے کو برا بھلا کہتے رہتے
ہیں اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ میرے نزدیک ہمارا یے ظعیف اور بیمار معاشرے کی
وجہ بے نام اور گم نام محبت ہے ۔جس سے ہم جان بوجھ کر باہر نکلنا نہیں چاہ
رہے ۔ ارے بھئی یے قوم اس غم سے باہر نکلے گی تو ہی کسی وار مقصد کی طرف
بٹرھے گی نا۔
اک قوم کی ترکی کا انحصار اس کی نوجوان نسل پہ ہوتا ہے،مگر ہماری نوجوان
نسل تو محبت کے غم میں اتنی ہلکان ہے کہ کہیں اور کیا دیکھے ۔
یقین کیجیے اب تو ہماری قوم غم سہنے کی اتنی عادی ہو چکی ہے کہ کچھ وقت
کیلیئے اس زرا دور رکھ کے باقی کام با آسانی سر انجام دے سکتی ہے۔لیکن کچھ
دیر کیلیئے۔
زرا اک نظر اپنے ارد گرد تو گھمائیے کیا آپ کو وحشت نہیں ہوتی ،کہ ہر جگہ
۔۔۔۔غرض میڈیا کے سارے ڈرامے نوجوانوں کے احساسات کو ابھارتے ہیں ۔ایسی
پاکیزہ محبت دکھائی جاتی ہے کہ ہر شخص ایسی پاکیزہ محبت کا خواہشمند ہے
۔اصل مقصد حیات کی طرف ہم میں سے کوئی مائل نہیں ہوتا۔
لیکن میرے نزدیک یہ اک ظعیف اور بیمار سوچ ہے جس سے ہم جان بوجھ کر باہر
نکلنا نہیں چاہ رہے۔
ویسے ہی پڑھنے والے دلبرداشتہ نہ ہوں ۔۔ جو اس کیفیت سے گزرپا ہیں خاصہ
سمجھ پائیں گے ۔
مقصد محض اپنی سوچ اور عمل میں تبدیلی لانا ہے ۔ کوشش کی سیڑھی آپ کا پہلا
قدم ہے۔
املاء کی غلطی میں معافی کی طلبگار۔
بقلم “جویریہ سجاد“ |