ٹرانس جینڈر۔۔۔ (تحفظ خواجہ سرا)

خواجہ سراؤں کا معاشرے میں اہم مقام ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ متعدد خواجہ سرا مختلف اداروں میں اپنے فرائض انجام دے کر ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں ۔

انسانی زندگی میں بہت سے ایسے موڑ آتے ہیں جہاں پر انسان اضطراب کا شکار ہوجاتا ہے اور بعض اوقات دیگر انسانوں کا رویہ اسے مایوس کر دیتا ہے مگر بہت سے ایسے افراد بھی معاشرے میں موجود ہیں جنہوں نے اپنی کسی کمزوری کا شکوہ کرنے کی بجائے پیش آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کیا اور معاشرے میں اپنی کامیابیوں کا لوہا منواتے ہوئے اپنے وجود کو تسلیم کروایا ایسے ہی افراد میں ایک جانا پہچانا نام ہے مارویہ ملک جو کہ صنف کے لحاظ سے تو خواجہ سرا ہے مگر اس نے خواجہ سرا ہونے پر شرمندگی محسوس نہیں کی بلکہ معاشرے میں اپنی پہچان بطور نیوز کاسٹر بنائی جو کہ خواجہ سرا کمیونٹی کیلئے قابل فخر بات ہے ۔مارویہ ملک کا کہنا ہے کہ ہمیشہ خواجہ سرا کو عجیب و غریب نظروں سے دیکھا جاتا ہے جبکہ ہم بھی بالکل عام افراد کی طرح ہیں اور میری طرح کے دیگر خواجہ سرا بھی معاشرے کی بے حسی کا شکار ہوتے ہیں مگر پھر بھی ہم پراعتماد ہیں اور معاشرے میں اپنا بہتر نام بنا سکتے ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ تیسری جنس کا شعور و آگاہی حاصل کرنے کے بعد عام افراد کی طرح زندگی گزارنے کا طریقہ کار بہت عمدہ ہے ۔خواجہ سراؤں کا معاشرے میں اہم مقام ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ متعدد خواجہ سرا مختلف اداروں میں اپنے فرائض انجام دے کر ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں ۔خواجہ سراؤں کیلئے سکول کا قیام ایک احسن اقدام ہے جس سے خواجہ سرا تعلیم حاصل کرنے کے بعد زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا نام بنا سکیں گے ۔حال ہی میں ٹرانس جینڈر پروٹیکشن بل منظور کیا گیا ہے جس کے مطابق ٹرانس جینڈر کو جنس کے تعین کیلئے میڈیکل بورڈ کے سامنے نہیں پیش ہونا پڑے گا اس طرح سے مارجن لائن کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کی طرح ان کی عزت نفس بھی محفوظ رہے گی کمیونٹی کے افراد پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر سکیں گے ۔انہیں نادرا کے پاس اپنی جنس کی تبدیلی کا اختیار بھی ہوگا ۔ٹرانس جینڈر کو ہراساں کرنے والے افراد کے خلاف بھی کارروائی ہو گی ۔تعلیمی اداروں میں ان کے ساتھ کسی قسم کی تفریق رواں نہیں رکھی جائے گی ۔ہسپتالوں میں خواجہ سراؤں کو دیگر افراد کی طرح یکساں طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی ۔پراپرٹی کی خریدوفروخت اور مکان کرایہ پر حاصل کرنے کا انہیں پورا حق حاصل ہوگا۔ حکومت ان کیلئے محفوظ گھر بنانے کے ساتھ ساتھ صحت کی تمام سہولیات فراہم کرے گی۔جیلوں میں خواجہ سراؤں کیلئے الگ بیرکس ہونگے۔انہیں اپنا کاروبار کرنے کیلئے آسان شرائط پر قرض دیا جائے گا ۔ واراثت میں بھی انہیں حصہ دیا جائیگا۔ صوبائی و قومی انتخابات میں نہ صرف ٹرانس جینڈر ووٹ دے سکیں گے بلکہ بطور امیدوار حصہ بھی لے سکیں گے ۔ٹرانس جینڈر بل کی منظوری کے بعد خیبر پختونخواہ میں 15ٹرانس جینڈرز کو ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈرائیونگ لائسنس جاری کئے گئے ہیں ۔ٹرانس جینڈر مذکورہ بل کی منظوری کے بعد مطمئن ہیں کہ اب انہیں ان کی شناخت مل چکی ہے جس کے باعث اب وہ معاشرے میں اپنا عمدہ مقام بنا سکتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معاشرے کے دیگر افراد کو بھی اب اس بات کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی بھی ملکی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے اگر میڈیا انڈسٹری کی طرف نظر دوڑائیں تو کئی ٹرانس جینڈر بطور اینکر،بطور کیمرہ مین،بطور ماڈل،بطور ایکٹراور بطور میک اپ آرٹسٹ کام کر رہے ہیں ۔اگر تعلیمی اداروں کی طرف نظر دوڑائیں تو بطور لیکچرار بھی ٹرانس جینڈر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔اگر ہوٹل انڈسٹری کا مشاہدہ کیا جائے تو تیسری جنس بطور شیف بھی اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تیسری جنس کی حوصلہ افزائی کی جائے بات صرف تعلیم یافتہ خواجہ سراؤں کی ہی نہیں بلکہ نا خواندہ خواجہ سرا بھی معاشرے میں اپنی کمیونٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں جس کی روشن مثال ببلی ملک ہیں جو کہ مختلف تقاریب میں اپنی کمیونٹی کے حقوق کیلئے آواز اٹھا رہی ہیں اور دیگر خواجہ سراؤں کیلئے ایک عمدہ مثال ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ باروزگار خواجہ سراؤں کی طرح دیگر خواجہ سراؤں کو بھی معاشرے میں مہذب مقام مل سکتا ہے مگر اس کیلئے معاشرے کے دیگر افراد کو ان کا تمسخر اڑانے اور ان کی حوصلہ شکنی کے بجائے ان کا ساتھ دینا ہوگا اور حوصلہ افزائی کرنا ہوگی تب جا کر آئین پاکستان اور انسانی حقوق کے تحفظ کا خواب پورا ہو سکے گا ۔
(ذراسوچئے)

Wajahat Hussain Qazi
About the Author: Wajahat Hussain Qazi Read More Articles by Wajahat Hussain Qazi: 17 Articles with 16578 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.