فلسفہ زندگی

یہ آرٹیکل زندگی کے فلسفے کو بیا ن کرتا ہے کہ زندگی کیا ہے ؟ کیوں ہے ، کب سے ہے اور کب تک رہے گی ؟ وغیرہ وغیرہ

ابتدائے آفزینش سے لے کر آج تک بے شمار لوگ دُنیا میں آئے زندگی کی سانسیں گزاریں اور موت کی آغوش میں چلے گئے ۔ آنے والے آئے دنیا میں رہے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتارہے گا ۔ جو آئے وہ زندگی کے بے شمار رنگوں سے آشنا بھی ہوئے ان کے بارے میں غورو فکر بھی کیا تدبر بھی کیا کہ یہ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ مقصد حیا ت کیا ہے مگر کچھ بھی حرف آخرثابت نہ ہو سکا ۔
کسی نے کہا
ـ زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
کسی نے کہا
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے

ہم اپنے گردوپیش نظر دوڑاتے ہیں تو ہر ایک کو مسائل میں گھر ا پاتے ہیں۔ کسی کو روزی رزق کے مسائل ، تو کسی کو نافرمان اولاد کی شکایت ، کسی کو گلہ ہےکہ زندگی پریشانیوں کا گھر ہے تو کسی کو زندگی کی ویرانیوں کا ڈر ہے ۔

کہیں کوئی ساس سے تنگ ہے تو کوئی بہو سے نالاں ہے کوئی شوہر کی بے پرواہیوں سے پریشان ہے تو کوئی بیوی کی بدمزاجی کا شاکی ہے ۔

کسی کے نزدیک زندگی پھولوں کی سیج ہے ۔ تو کسی کا نظریہ زندگی یہ ہےکہ یہ کانٹوں کا بستر ہے ۔ کوئی زندگی کو پانی کا بلبلہ قرار دیتا ہے۔ تو کوئی سراب کہتا ہے ۔ تمام عمر انسان زندگی کو پانے اور آسائشات زندگی کے حصول کے لیے تگ و دو کرتاہے تو اُس وقت جب خواہش نا تمام کی تکمیلی کا وقت آتا ہے تو موت کا نقارہ بج جاتا ہے۔

ایک دن سرا رہ ایک دیوار پہ لکھا ہوا پڑھ کر میں بہت اُداس ہوئی اور خوش بھی ہوئی کہ کوئی چیز ایسی بھی ہے جو اُستاد سے زیادہ سخت ہے لکھاہوا تھا

زندگی استاد سے زیادہ سخت ہے استاد سبق دے کر امتحان لیتا ہے ۔ اور زندگی امتحان لے کر سبق دیتی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے بہت سارے لوگ زندگی میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں ۔ زندگی ان پر اتنے انعامات اور تعیشات نچھاور کرتی ہے کہ ان کے نزدیک زندگی سے بڑھ کر کوئی حسین تحفہ نہیں اور اور وقت ان کو ایسا لاڈلا بنا دیتا ہے کہ وہ ہروقت کھیلن کو چاند مانگتے ہیں۔

بہرکیف زندگی کے نظریات کچھ بھی ہو ں ، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے زندگی خدا کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔

اللہ پاک کی عباد ت کے لیے فرشتوں کی لمبی قطاریں تھیں ۔ لیکن اللہ تعالٰی نے کھنکھناتی مٹی سے وجود انسانی کو خلق کیا ۔ فرشتوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ یہ مخلوق تو دُنیا میں لڑائی جھگڑا کرے گی ۔ مگر رب ذوالجلال نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جاتنے ۔

بے شک زندگی اللہ پاک کے سربستہ رازوں میں سے ایک رازوں میں سے ایک راز ہے اور علامہ اقبال نے اسی راز کو جانئے کے لیے خودی کا فلسفہ دیا اور فرمایا
ـ اپنے ہی من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنت نہ بن اپنا تو بن

Bushra Mumtaz
About the Author: Bushra Mumtaz Read More Articles by Bushra Mumtaz: 2 Articles with 1506 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.