میرے عظیم استاد

استاد وہ شخص ہوتا ہے جس سے آپ سیکھتے ہیں۔سیکھنے کا عمل بھی بڑا عجیب ہے۔ اس کے چند مروجہ طریقے ہیں اور ہر طریقہ اپنی جگہ بہت اہم ہے اور اسے سکھانے والے بھی مختلفانداز کے استاد لوگ ہیں۔آپ نے جس شخص سے جو سیکھا ، اس حوالے سے وہ آپ کا استاد ہے۔ میں نے زندگی میں کوشش کی ہے کہ ہر طریقے سے سیکھوں اور سیکھا بھی ہے۔ جس شخص سے بھی میں نے کچھ سیکھا اسے میں پورا احترام بھی دیتا ہوں اور ببانگ دہل اس کا شاگردہونے کا اعتراف بھی کرتا ہوں ۔ علم حاصل کرنے کے مروجہ طریقے کچھ یوں ہیں ؛

(Formal Education) علم حاصل کرنے کا آج کے دور میں سب سے بڑا ذریعہ ہے۔اس طریقہ تدریس میں لوگوں کو باقاعدہ سکولوں ، کالجوں اور مختلف تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا پڑتا ہے۔ وہ ادارے سکھاتے بھی ہیں، آپ کی ذہنی نشو ونما بھی کرتے ہیں اور سکھانے کے بعدباقاعدہ اس کی تصدیق بھی کرتے ہیں جو سرٹیفیکیٹ یا ڈگری کی صورت میں ہوتی ہے۔ میں نے اس طریقہ تعلیم سے پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی سمیت ہر طرح کے ادارے سے تعلیم حاصل کی ہے اور سرٹیفیکیٹ اور ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں۔ ایسے سکولوں اور کالجوں سے وابستہ مجھے پڑھانے والے میرے استاد میرے لئے آج بھی انتہائی محترم ہیں۔
(In-formal Education) ۔یہ وہ تعلیم ہے کہ وہ لوگ جو فارمل تعلیم نہ حاصل کر سکے انہیں روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی تعلیمی ضروریات کے قابل بنانے کے لئے دی جاتی ہے۔یہ تعلیم سکول کے باہر مختلف اداروں اور تنظیموں کی مدد سے سیکھتے ہیں۔ اس تعلیم میں وہ پابندی نہیں ہوتی جو فارمل ایجوکیشن کا خاصہ ہے مگر باقاعدہ کورسز ترتیب دئیے جاتے اور بعض اوقات سرٹیفیکیشن بھی کی جاتی ہے۔تعلیم بالغاں اسی کی ایک صورت ہے۔اس شعبے میں کام کرنے والے بہت سے اساتذہ سے میرے تعلقات ہیں اور میں ان اساتذہ کی ٹریننگ کا کام بھی کرتا رہا ہوں۔

(Non-Formal Education) یہ وہ طریقہ تدریس ہے جس میں لوگ ماحول اور ساتھی لوگوں کی عادات اور اطوار سے سیکھتے ہیں۔ کہتے ہیں انسان ماں کے پیٹ میں بھی ماں اور باپ کے طرز عمل سے سیکھتا ہے۔بلکہ یہاں تک ہے کہ اس کی پچیس سے تیس فیصد شخصیت پیدائش تک مکمل ہو چکی ہوتی ہے۔انسان بعد میں بھی سب سے زیادہ اپنے ساتھیوں ، رشتہ داروں اور ملنے جلنے والوں سے ہی سیکھتا ہے۔

نان فارمل ذریعہ تعلیم میں انسان اپنے بہن بھائیوں، رشتہ داروں، محلے داروں ، سکول کے ساتھیوں اور سب سے زیادہ اپنے قریبی دوستوں سے سیکھتا ہے۔ گو محسوس نہیں ہوتا مگر انتہائی قریبی دوست بھی ایک طرح سے آپ کے استاد ہوتے ہیں اور ان سے آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اسی تعلیم کے حوالے سے میں اپنے تین دوستوں کا بہت ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے جو تعلیم دی ہے، جو سکھایا ہے وہ کوئی اور نہیں سکھا سکتا۔ ان کا سکھایا ہو علم یکتا اور سب سے منفرد ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ رب العزت کا خاص احسان ہے کہ مجھے ایسے استاد نما دوست ملے اور آج میں ان علوم سے پوری طرح واقف ہوں۔میں پرانے وقتوں کا انسان ہوں اس دور کا کہ جب احترام انسان کا اوڑھنا بچھونا ہوتا تھا۔ اس زمانے میں خواتین احترام میں اپنے میاں کا نام اور شاگرد اپنے استادوں کا نام نہیں لیتے تھے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ جب میں ان استادوں کے یکتا علم کا تذکرہ کروں گا تو ان کا نام نامی چھلک چھلک کر آ پ کے ذہن میں آ جائے گا۔

میرے پہلے استاد محترم ایک سینئر صحافی، سینئر دانشور، سینئر کالم نگار ، سینئر تجزیہ کار ، یا یوں سمجھ لیں کہ سراپا سینئر ہیں۔ ان کے پاس جونیئر کا تصور ہی نہیں۔ وہ کسی شعبے کو چھو بھی جائیں تو شعبہ چاہے جونیئر ہو جائے وہ سینئر ہی رہتے ہیں۔ میں ان کا خصوصی مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے سکھایا ہے کہ جہاں نہ بھی ضرورت ہو وہاں بھی ڈٹ کر بحث کرو۔ بحث کے لئے دماغ اور دلیل جیسی چیزوں پر وقت ضائع کرنے کی بجائے آواز کے مدوجزر سے زیادہ کام لو۔ ایسی گھن گرج سے زور دار آواز میں مخالف پر وار کروکہ وہ خود ہی ہتھیار پھینک دے۔میں نے دیکھا ہے کہ ان کے زور بیان کے مقابلے میں دوسرے لوگوں کی گفتگو یوں لگتا ہے جیسے سسکیوں کی آواز ہو۔ استاد محترم میری کمزوری ہیں ،کچھ دن ان سے ملاقات نہ ہو تو تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ آپ اور میں 1972-73 میں یونیورسٹی میں اکٹھے تھے لگتا ہے یونیورسٹی نے ڈگری کے ساتھ مجھے جہیز میں دیئے ہیں شاید اسی لئے مجھے ان سے اور انہیں مجھ سے بہت پیار ہے۔ چند دن پہلے میں نے استاد محترم کے ان اوصاف کا ذکر سوشل میڈیا پر بھی کیا تھا۔جانے کیوں کچھ برا مان گئے۔ جواب میں دوستوں کو میرے بارے کہا کہ اس کا دماغ 1973 میں ہی خراب ہو گیا تھا، اس وقت میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ اب پیسے ہیں تو یہ لا علاج ہو گیا ہے۔ان کی شفقت اور نظر کرم ہے کہ ابھی تک میرا خیال رکھتے ہیں۔میری صحت کی انہیں تشویش ہے۔ویسے ان کی عمر بھی ساٹھ سے کافی زیادہ ہے اور سٹھیائے ہوئے لوگوں کی بات پر زیادہ دھیان دینا تو ویسے بھی حماقت سمجھا جاتا ہے۔

میرے دوسرے محترم استاد مشہور ماہر تعلیم ، سائیکولوجسٹ، بڑی زندہ اور پائندہ شخصیت ہیں ۔میں گورنمنٹ کالج آف سائنس میں ان کے ساتھ پڑھاتا رہا ہوں۔ ایک کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ ان کا صحیح معنوں میں مضمون تخریب کاری ہے۔ لوگوں کو اپنے سینئرز اور ساتھیوں کے ساتھ ہلکی پھلکی تخریب کاری کے گر سکھانااور اس مقصد کے لئے مائل کرناان کا خاص استادی فن ہے۔سکھانے کے ساتھ ساتھ یہ پوری رہنمائی بھی کرتے ہیں ۔ جب ان کا شاگرد پورے جوبن پر ہوتا ہے یہ اسے حوصلہ دیتے ہوئے غائب ہو جاتے ہیں۔ بلکہ مخالف کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اگر شاگرد کامیاب تو اس کے ساتھ شریک رقص ہوتے ہیں اور اگر ناکام نظر آئے تو استاد محترم اسے اپنے ہاتھوں کسی کنوئیں میں دھکا دینے کا بھی کمال دکھاتے ہیں۔ان کی مسکراہٹ اور ظاہری پیار و خلوص کسی کو اس کے انجام سے خبر دار نہیں ہونے دیتا۔ بہت دنوں سے لا پتہ ہیں ۔ میرے سمیت بہت سے شاگردوں کو ان کی کمی محسوس ہوتی ہے مگر وہ جو فن سکھا گئے ہیں میں اس فن کی بدولت آج فخر سے جی رہا ہوں ۔ لوگ عزت بچا کر پاس سے گزرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس فن کو سکھانے کے حوالے سے میں ان کا مشکور اور ممنون ہوں اور رہوں گا۔

میرے تیسرے استاد میرے ساتھی، میرے دوست اور اساتذہ سیاست میں میرے مخالف ایک نامور ریاضی دان ہیں۔ہم ایک عرصہ گورنمنٹ سائنس ایجوکیشن میں اکٹھے پڑھاتے رہے۔ سیاسی معاملات اور ذاتی اغراض کے حوالے سے آنکھیں پھیرنا، بے مروتی کرنا، سب رواداری، مروت اور تعلقات کو بالائے طاق رکھ کر مسکراتے ہوئے دوسرے کو شرمندہ کرنا۔ منافقت، ریا کاری کا عجیب مرقع ہیں۔ یہ وہ اچھوتا فن ہے جو کوئی دوسرا جانتا ہی نہیں سکھائے گا کیا۔ ایک آدھ دفعہ میں نے اس فن کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تو دوستوں نے ہنس کر کہا، آج کیسی باتیں کر رہے ہو تم تو ایسے نہ تھے، میں اسی لمحے استاد محترم کاتعارف کروا دیتا ہوں کہ یہ ان کا سب دیا ہوا ہے۔۔ استاد محترم نے کبھی برا نہیں مانا ۔ بس اتنی ہدایت کی ہے کہ تفصیلی تعارف نہ کرایاکرؤں ۔ فن دیکھ کر لوگ خود ہی باقی باتیں جان جائیں گے۔استاد محترم آج بھی بڑے تپاک سے ملتے ہیں اور میری کسی بات کا برا نہیں مناتے۔ مگر میں ان کے رویے سے بہت سیکھتا ہوں۔

شیخ سعدی سے کسی نے پوچھا کہ تم نے عقل کہاں سے سیکھی، جواب ملا ،جاہلوں سے۔میں نے اپنے تین استادوں سے تین فن، اول بغیر دلیل اور بغیر دماغ ڈٹ کر بات کرنا۔ دوم جہاں رہنا، تھوڑی چھیڑ چھاڑ اور تخریب کاری جاری رکھنا او ر تیسرااپنے مطلب کے لئے ہر شخص سے آنکھیں پھیر لینا، سیکھے ہیں۔ میں یہ فن استعمال کروں یا نہ کروں ۔ ایسے فنکاروں سے جو یہ فن جانتے ہیں،بچنا مجھے آ گیا ہے۔یہی میرے اساتذہ کا مجھ پر احسان ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 437959 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More