دکھی انسانیت کی خدمت کے دعویدار۔۔۔۔

دکھی انسانیت کی خدمت میرا مشن ہو گا ،آج جو کامیابی ملی ہے وہ میرے والدین کی دعاؤں اور اساتذہ کی انتھک محنتوں کا ثمر ہے ،میں میڈیکل کا شعبہ اختیار کر کے اپنے علاقہ کے غریب مستحق لوگوں کے علاج معالجہ کے لیے دن رات ایک کردونگا /گی،قارئین کرام !آغاز میں لکھے یہ وہ جملے ہیں جو میں نے اپنی صحافتی زندگی میں ہر سال ایف ایس سی کی تعلیم میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والوں سے سُنیں اور ہر بار اسی اُمید میں خوش ہوتا رہا کہ یہ نوجوان ضرور اپنے کہے کا پاس رکھے گا /رکھے گی،لیکن پانچ ،سات سال کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد بڑے بڑے دعوے کرنے والے ان میں سے اکثر نوجوان مستقبل کے لئے نئی منصوبہ بندی کرتے اور دوستوں میں یہ شیئر کرتے پائے جاتے ہیں کہ اس علاقہ میں کیا پڑا ہے بڑے شہر کے بڑے ہسپتال میں ملازمت کو ہی ترجیح دونگا /گی یہاں تو آگے بڑھنے کے مواقع کہاں ہیں ؟ قائین کرام !آج کل میڈیکل کی تعلیم میں مزید پانچ ،دس سال کا اضافہ کر لیں کیونکہ اب ہر ایم بی بی ایس کرنے والے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایف سی پی ایس ،ایف آر سی ایس کرے جب یہ تعلیم حاصل کرنے والے سینکڑوں طالب علم ملازمت کے لیے گورنمنٹ اداروں کا رخ کرتے ہیں تو اُن میں سے اکثر ایف ایس سی میں نمایاں کامیابی کے بعد بولے جذباتی جملے بھول چکے ہوتے ہیں انکی سب سے بڑی خواہش اور کوشش کسی بڑے شہر کے بڑے ہسپتال کی ہوتی ہے جہاں وہ زندگی کی تمام تر آسائش کے ساتھ زندگی گزار سکیں اکثر یورپ ،امریکہ یا کسی اور ملک میں جا بسنے اور زیادہ سے زیادہ کمانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں وطن عزیز میں دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والوں پر بھاری بھاری فیسیں وصول کرنے کا خبط سوار ہو جاتا ہے کچھ اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور چند مجبوریوں کی وجہ سے اپنے ہی علاقہ کے ہسپتال میں ملازمت کرنے لگ جاتے ہیں ہم جیسے چند سادہ لوح عزیز واقارب اور اہل علاقہ ڈاکٹر کو اپنے ہی علاقہ میں ملازمت کرتے دیکھ کر شکر ادا کرتے ہیں کہ بڑے نیک والدین کی اولاد ہے دکھی انسانیت کا درد زمانہ طالب علمی میں ہی دل میں رکھتا تھا /تھی، اسی لیے تو اپنے شہر کے ہسپتال کو ترجیح دے کر یہیں ملازمت کی ہے بس اسی خوش فہمی میں بیماری کی صورت میں علاقہ کے غریب کا درد رکھنے کے دعویدار کے پاس جا پہنچتے ہیں موصوف /موصوفہ اگر تو اپنے گھر کے کسی حصہ میں کلینک بنا ئے بیٹھے ہیں تو آپ اُن تک پہنچنے سے پہلے ایک پرچی کاٹنے والے سے پہلی بار ملتے ہیں جو آپکو ڈاکٹر سے مشورہ کے لیے ایک بھاری فیس طلب کرتا ملے گا یہاں آپکو پہلا جھٹکا لگتا ہے آپ اس خوش فہمی میں آئے تھے کہ فلاں دوست ،فلاں محلہ والے صاحب کا بچہ ہے بچپن سے آپکو چچا /چچی کہتا رہا ہے دس پندر سال کی تعلیم نے اُسے مزید ہمدرد اور مخلص بنا دیا ہوگا لیکن آپ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ لاکھوں روپے خرچ کر کے اپنی محنت سے تعلیم حاصل کر کے یہاں تک پہنچا ہے اور اُسے ابھی اور آگے بڑھنا ہے بڑا سا ہسپتال بنانا اور جدید ٹیکنالوجی سے مزین میڈیکل مشینری منگوانا ہے کیا وہ دکھی انسانیت کی خدمت والا جملہ اپنے دل ودماغ پر حاوی کیے رکھے ؟؟؟قارئین کرام ! بہت سے افراد جو شعبہ طب سے وابستہ ہیں مستحق غریب افراد کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے سرگرم رہتے ہیں لیکن چند ایک افراد کے غلط رویے معاشرہ میں اچھا تاثر نہیں چھوڑتے ویسے تو ہر دور میں دولت کمانے کی فکر میں لوگ مصروف نظر آتے ہیں لیکن اگر آجکل کے دور کا ذکر کیا جائے تو دولت کمانے کی فکر میں ہم میں سے اکثرانسانیت کو بھی بھُلا بیٹھے ہیں گزشتہ دنوں ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال میں جانے کا موقع ملا تو حکومت پنجاب کے صحت کے شعبہ کے لیے کیے گئے اقدامات کو دیکھ کر کچھ اطمینان ہوا بلڈنگ کی تزئین وآرائش کے ساتھ ساتھ نئی بلڈنگ (بلاک )کی تعمیر اور جدید مشینری کی فراہمی لیکن کچھ وقت ہسپتال میں گزارنے کے بعد احساس ہوا کہ بلڈنگ کی تزئین وآرائش تو قابل ستائش ہے لیکن جدید مشینری کا استعمال اور ڈاکٹرز کی فوری توجہ کس حد تک کم ہے ؟؟؟ آپکو مریضوں اور لواحقین کی جانب سے شکایات کے انبار نظر آئیں گے جدید مشینری جس میں فزیو تھراپی اور دیگر شامل ہیں کافی عرصہ سے ڈبوں میں بند ہیں ای ٹی ٹی روم بھی اُجڑا اُجڑا نظر آتا ہے ایمرجنسی میں مریضوں کی جانب سے ڈاکٹرز کے رویوں کے بارے میں اچھی خبر سننے کو بہت کم ملتی ہے آوٹ ڈور میں بھی مریض اپنے علاج اور ڈاکٹر کی عدم توجہ کی شکایات کرتے ملتے ہیں گزشتہ دنوں سینئر صحافی شہباز ساجد جو کہ اوکاڑہ پریس کلب کے سابقہ صدر بھی ہیں کو دل کی تکلیف کے باعث ایمر جنسی لے جایا گیا وہاں پر موجود دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کے ایک دعویدارعمران ڈوگر نے انکو یہ کہہ کر چیک کرنے سے انکار کر دیا کہ اُسکی ڈیوٹی آج وارڈ میں ہے جبکہ شہباز ساجد کے بقول ڈاکٹر صاحب اُس وقت ای ٹی ٹی روم میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف چائے پی رہے تھے جب اُنہوں نے ڈاکٹر موصوف کو اپنی دل کی تکلیف کے بارے میں بتایا تو بھاری تعلیمی ڈگریوں کا سہرا سجائے موصوف نے انسانی ہمدردی کا جنازہ نکال دیا اور کہا کہہ جائیں جائیں کسی اور کو جا کر چیک کروائیں اس تلخ رویہ کے بارے جب راقم کو علم ہوا تو اُس نے فوری ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر ارشاد احمد ، چیف آفیسر ہیلتھ ڈاکٹر سیف اﷲ سے معاملہ کی شکایت کی جس پر فوری عمل درآمد اس حد تک ہوا کہ مریض کو اگلی صبح ہسپتال دوبارہ لانے اور بہتر علاج کی نوید سنائی گئی لیکن افسوس کی بات یہ ہوئی کی اگلے دن بھی ڈاکٹر موصوف کے رویے میں کوئی خاص تبدیلی نہ آسکی البتہ ڈپٹی کمشنر اور سی او ہیلتھ کاحکم آنے کہ وجہ سے مجبوراََکسی دوسرے ڈاکٹر سے ایم ایس نے چیک اپ کروادیا اور شہباز ساجد کو پنجاب کارڈیالوجی جانے اور علاج کروانے کے بارے مشورہ اور ہدایات بھی دی گئیں قارئین کرام !میرے شہر اور میرے وطن کے اکثر شہروں میں ڈاکٹر صاحباں مریضوں کو بڑے شہروں میں ریفر کرتے ہی پائے جاتے ہیں اس طریقہ سے ایمر جنسی میں مریضوں کے رش کو کم کرنے کا واحد زریعہ اب یہ ہی رہ گیا ہے نہ مریض ہسپتال میں رہے اور نہ بار بار اُسکو چیک کرنے کا کوئی جھنجٹ رہے ،عطائیوں کے خلاف سپریم کورٹ کی جانب سے کاروائی کا حکم قابل ستائش تو ہے لیکن کیا گورنمنٹ کے ہسپتالوں میں نظام ایسا ہے کہ مستحق غریب افراد اپنا علاج چوبیس گھنٹے کروا سکیں دوپہر کے بعد بہت سے شعبے ویسے ہی کام کرنا بند کر دیتے ہیں جن میں ایکسرے ،بلڈ ٹیسٹ ،ای سی جی ،الٹرا ساؤنڈ قابل ذکر ہیں اگر کوئی مریض دوپہر کے بعد ہسپتال پہنچتا ہے تو ان سہولیات سے بلکل ہی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا ویسے توصبح 8سے 2بجے تک ہسپتال پہنچنے والے اکثر مریض بھی کم ہی فیض یاب ہو سکتے ہیں اعلی افسران سے راقم کی بارہا ان معاملات پر بات ہوئی جس پر فوری احکامات کی نوید سنائی گئی لیکن پھر چند دن بعد نتائج توقع کے برعکس ہی نکلے ہسپتال میں کبھی تزئین وآرائش کے نام پر کچھ شعبے کام کرتے نظر نہیں آتے اور کبھی ڈاکٹروں کی کمی کا ذکر ہمیں مایوس کر دیتا ہے٭

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 121087 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.