آج قلم اٹھانے کی ضرورت پیش اس لیے ھے کہ اج میں ایک طالب
علم کی بکواس ؤ بتمیزی کی وجہ سے پریشان ھوں کہ میرا اسلامی معاشرہ اس
راستے پر چل پڑا ھے؟ کیونکہ میں ایک سکول میں اسلامیات, اردو, مطالعہ
پاکستان پڑھانے جاتا ھوں!!
آج صبع ایک فون کال آئی بات کرنے پر معلوم ھوا کہ دوسری طرف ایک ماں رو رہی
ھے اور کہہ رہی ھے کہ سر آپ کیا پڑھاتے ہیں؟کیا بتاتے ہیں؟کیا سمجھاتے ہیں
بچوں کو ؟میرے سوال پر روتے ھوۓ کہا!! سر آپکی کلاس نہم میں پڑھنے والی
میری فلاں بیٹی نے مجھے گالی دی ھے اور کہتی ھے کہ ماں بکواس نہ کرو!!!میں
خاموش اسکی بات سن تو رہا ھوں مگر جواب دینے کی طاقت کھو چکا تھا بڑی مشکل
سے اپنی طاقت ؤ قوت جمع کر کے اللہ کئ رحمت سے انکو تسلی دی اور بچی کو
سمجھانے کا وعدہ کیا. سکول جا کر میرے پر بیٹی نے روتے ھوۓ معافی مانگی اور
بتایا کہ گھر کی روز کی لڑائی نے مجھے ایسا بنا دیا میرے والدین آپس میں
کسی نہ کسی معمولی بات پر لڑائی شروع کر لیتے ہیں اور میرے رویے کے ذمہ دار
بھی میرے والدین ہیں اسکو والدین کے ادب ؤ احترام پر اسلامی نقطہ نظر سے
مکمل آگاہ کرنے کے اپنے پرنسپل صاحب کے ہمراہ اسکے والدین کو ازواجی زندگی
سے بھی آگاہ کیا اور بیٹی سے معافی منگوانے کے بعد واپسی ھوئی لیکن واپس
آتے ھوۓ میں اس نتیجے پر رک گیا کہ یہ اصل وجہ میاں بیوی کی گھریلو لڑائی
ھے اس لیے آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں گزارش
کروں گا.
اسلام مسلمان کو ایک الگ اور جداگانہ طرز زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتا ھے.
جس کے تحت اس کا مقصد اولین صرف اور صرف یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے اور
کیفیات میں مسلمان اپنے اللہ کے ساتھ تعلق کو مضبوط رکھے۔یہ ایک حقیقت ہے
جس سے کنارہ مشکل ھے کہ انسان خوشی و غمی کی کیفیات کا مجسمہ ھے. پھر ان کے
اظہار کے لئے ہم انسانوں نے ہی خود مختلف طریقے متعین کر رکھے ہیں۔ جنکو ہم
نے نام رسومات کا دیا ھے. ایسے ہی زندگی کی اہم ترین خوشی کسی بھی گھرانے
میں شادی کی تقریب ھوتی ھے. رفیق حیات کا انتخاب ،تقریب شادی منعقد کرنے کا
اسلامی طریقہ کار اور بعد میں اس کے متعلق جنم لینے والے خاندانی مسائل کو
اسلامی طریق کے مطابق حل کرنے کے آداب ۔یہ سب انسانی خاندانی زندگی کے اہم
ترین مراحل ہیں۔کائنات میں عالم شباب پہنچنے ولے ہر انسان کو تقریبا ان
مراحل سے گزرنا ھوتا ھے. چنانچہ اس خیال کو مدنظر رکھتے ھوۓ میں نے چند
شرعی و اسلامی اصول رہنمائی کی کی غرض سے درج کیے ہیں کیونکہ ضرورت ہر لمحہ
رہتی ھے.
1) نبی صلی اللہ علیہ وسلم امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں سر مبارک
رکھ کر قرآن پڑھتے تھے جبکہ وہ حالت_حیض میں ہوتی تھیں.بخاری:297
ابوداؤد:260
2) نبی صلی اللہ علیہ وسلم امی عائشہ کی ران پر سر مبارک رکھ کر سو جایا
کرتے تھے. بخاری:334 سنن نسائی:338
3) نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کام کاج میں اپنی بیویوں کا ھاتھ بٹاتے
تھے.بخاری:676
4) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی کڑوی کسیلی باتیں اور طرز_عمل
خندہ پیشانی سے برداشت کرتے تھے.
بخاری:2581 اور 4913
5) نبی صلی اللہ علیہ وسلم امی عائشہ رضی اللہ عنہا کو Nick Name عائشہ سے
پکارتے تھے.بخاری:3768
6) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی بیماری میں بیمار پرسی کرتے
تھے.بخاری:4141
7) ایک مرتبہ ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی آپ کے ہمراہ
تھیں. حدی خوان اونٹوں کو تیز تیز ہانکنے لگا تو آپ نے اسے حکم دیا:
آہستہ چلو, آبگینے/شیشے ٹوٹنے نہ پائیں.
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی نرمی کے لیۓ آبگینے کا استعارہ
استعمال کیا.بخاری:6149, 6161, 6210, 6211
8) نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسواک کرتے
(تاکہ بیوی کے لیۓ باعث_طہارت ہو)
مسلم:591
9) برتن میں جس جگہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا ہونٹ لگا کر پانی پیتیں آپ صلی
اللہ علیہ وسلم بھی اسی جگہ ہونٹ مبارک لگا کر پانی پیتے.مسلم:692
10) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کے ساتھ ایک ہی وقت میں , ایک ہی
برتن میں غسل فرمالیتے تھے.مسلم:732
11) ایک مرتبہ عید کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امی عائشہ رضی اللہ
عنہا کا دل بہلانے کے لیۓ اپنے جسم مبارک کے پردہ کی اوٹ سے حبشیوں کے کرتب
(نیزہ بازی وغیرہ) دکھاۓ.مسلم:2064 , 2066
12) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کھانے میں کبھی عیب نہیں
نکالا.مسلم:5380
13) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بیوی یا خادم کو کبھی نہیں
مارا.مسلم:6050 ابن ماجہ:1984
14) نبی صلی اللہ علیہ وسلم امی خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بھی ان
کی بزرگ سہیلیوں سے حسن_ سلوک فرماتے اور ان کو تحائف بھجواتے.ترمذی:2017
15) نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کی ادائیگی کے لیۓ گھر سے نکلتے تو امی
عائشہ رضی اللہ عنہا کا بوسہ لیتے تھے.ابوداؤد:179 ابن ماجہ:502
16) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تفنن طبع کے لیۓ زندگی میں دو مرتبہ امی
عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوڑ لگائی.
پہلی مرتبہ امی عائشہ جیت گئیں اور دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیت
گئے. جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری بار جیت گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا :عائشہ ! حساب برابر ہو گیا.
ابوداؤد:2578 السلسلہ الصحیحہ:1945
17) جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک قبض ہوئی اس وقت آپ کا سر
مبارک امی عائشہ کی گود میں تھا.بخاری:2741 مسلم:4231
1) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بیوی بچوں پر خرچ کرنا بھی باعث_ثواب ہے.بخاری:55
2) بیوی کے منہ میں کھانے کا لقمہ ڈالنا بھی باعث_ثواب ہے.بخاری:56
3) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو پسند فرماتے کہ مومن اپنی بیوی کے
ساتھ ہنسے اور کھیل کود کرے.بخاری:6387
4) جو مومن اللہ تعالی اور یوم_آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ جب (اپنی بیوی)
میں ناپسندیدہ معاملہ دیکھے تو اچھے طریقے سے کہے یا خاموش رہے. عورتوں کے
ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے تم اسے سیدھا کرنے
لگو گے تو توڑ بیٹھو گے, عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو.مسلم:3644
5) آدمی اپنی بیوی سے بغض نہ رکھے کیونکہ اگر اس کی کوئی عادت ناپسند ہو گی
تو کوئی دوسری عادت پسند ہوگی.مسلم:3645
6) دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے.مسلم:3649
7) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کی کمزوریاں تلاش کرنے سے منع فرمایا
ہے.مسلم:4969
8) تم میں بہتر مومن وہ ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو.ترمذی:1162
اسلام نے عورتوں کے بھی ایسے ہی حقوق بیان کیے ہیں جیسے کہ ان پر مردوں کے
حقوق ہیں۔ اسلام نے انسان کو اپنی رفیقۂ حیات پر ظلم و ستم ، ایذارسانی،
جسمانی سزا، تذلیل، روحانی اذیت اور گالی گلوچ سے سختی سے منع کیا ھے
.ازدواجی زندگی کی کام یابی کے لیے صبر و تحمل اور باہمی عفو و درگزر کی
تلقین فرمائی ھے. شیطان سب سے زیادہ جس بات سے خوش ہوتا ہے وہ میاں بیوی
میں تفریق ڈلوانا یعنی طلاق دلوانا ہے.
حقوق کے معاملے میں اسلام، مساواتِ زن و شو کا حامی ہے لیکن کارہائے عمل
دونوں کے مختلف ہیں۔ بعض لوگ مرد اور عورت کے حقوق کی مساوات کو غلط سمجھتے
ہیں۔ ان کے خیال میں عورت ہر لحاظ سے مرد کے برابر ہے اور ان دونوں کے
میدان ہائے عمل بھی ایک ہیں۔ بلاشبہ اسلام نے عورت کو قانونی اور اخلاقی
حیثیت سے مرد کے برابر لاکھڑا کیا ہے۔بس ضرورت اس امر کی ھے کہ ایک دوسرے
کو فوقیت دے کر زندگی بسر کریں تو انشاءاللہ گھر برکت بھی ھو گئ اور بچے
بھی ادب و احترام کے حامی ھوں گۓ اللہ پاک اپنی رحمت سے مجھے اور آپکو عمل
کی توفیق عطا فرماۓ. آمین
|