بچپن میں سنتے آتے تھے کہ مہمان اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں
اور اپنی قسمت لیکر آتے ہیں. جس پر مجھ سمیت تقریبا ہر ایک کا ایمان بھی ہے
ٹیکنالوجی کے ایک ایسے دور میں جب ہر کوئی فیس بک پر دوست بنانے کی کوششوں
میں مصروف عمل ہیں اور رشتہ داروں کو لفٹ تک نہیں کرواتا . ایسے میں اگر
کوئی رشتہ دار کسی کے گھر جائے اور میزبان مہمان یا رشتہ دار سے یہ پوچھے
کہ وہ کہاں سے آیا ہے اس کا ابھی کاروبار کیا ہے ایک دفعہ تو چلو بات بنتی
ہیں لیکن یہ بھی غیر مناسب سی بات ہے لیکن.
سلام ہے خیبر پختونخوا کی مثالی پولیس کی جنہوں نے ایک نیا آرڈر جاری کردیا
ہے جس کے تحت حیات آباد کے علاقے میں رہائش پذیر کرایہ دار نہ صرف مہمانوں
اور رشتہ داروں کی تفصیلات دینگے بلکہ ان کے فون نمبر ، عمریں اور روزگار
کے حوالے سے بھی پولیس کو لکھ کر دینگے کہ میرا مہمان فلاں علاقے کاہے .
سیکورٹی کے نام پر شروع ہونیوالے اس کھیل سے مقامی مکین حیران و پریشان ہیں
کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے این او سی لکھ کر اپنے متعلقہ تھانوں میں جمع
کروادیا ہے جس کیلئے کرایہ اداروں نے ناظمین کی منتیں کی ، ضمانت دینے والے
پراپرٹی ڈیلروں نے بھی ضمانت کی مد میں کرایہ داروں سے رقمیں وصول کرلی اور
کچھ لوگوں نے تصدیق کے عمل میں خرچہ پانی نکال دیا پھر پولیس کی بات ہی الگ
تھی..لیکن اب نئے حکم نامے نے حیات آباد کے کرایہ کے گھروں میں رہائش پذیر
شہریوں کو پاگل کردیا ہے کہ گھر آنیوالے مہمان سے کس طرح سوال کرینگے اور
اس بارے میں معلومات دینگے کہ کونسا مہمان کب آئے .رشتہ دار کب آئیگا اور
کتنی مرتبہ آئیگا .
یہ وہ سوال ہے جو حیات آباد کے مکینوں کو پریشان کررہی ہیں کیونکہ مہمان تو
اللہ کی رحمت ہوتے ہیں اب یہ تو اللہ کو ہی پتہ ہے کہ کس کے گھر مہمان بھیج
دے اور کسی کو اپنے رشتہ داروں سے کوئی کام ہو یا غمی خوشی ہو کیونکہ ہمارے
ہاں غمی و خوشی میں لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو وہ پولیس والوں کو اطلاع
کریگا کہ جی ایک ہفتے پہلے میرے آنیوالے مہمان /رشتہ دار یہ صاحبان ہیں. اب
اگلے ہفتے اگر ان مہمانوں/ رشتہ داروں کے بجائے کوئی اور مہمان یا رشتہ دار
آگیا تو اس کا ذمہ دار کرایہ دار ہوگا کیونکہ اس نے لکھ کردیا ہے کہ فلاں
فلاں مہمان اور رشتہ دار ہمارے گھر آرہا ہے.نام کی حد تک پوش علاقے میں
رہائش پذیر کرایہ داروں نے کرایہ داروں کے گھروں میں نوٹس اور این او سی
دینے والے پولیس اہلکاروں سے سوال کیا کہ وہ پہلے ہی اپنے گھروں کی معلومات
پولیس کو دے چکے ہیں اب یہ کیا تماشا ہے تو پولیس اہلکاروں کا موقف تھا کہ
نئے صاحب آئے ہیں اور نئے صاحب کو پرانے شیڈول کا نہیں پتہ اس لئے یہ نیا
سسٹم شروع کیا جارہا ہے.
کرایہ داروں میں تقسیم کئے جانیوالے پروفارمے میں یہ معلومات بھی شہریوں کو
دینی ہونگی کہ ان کے گھر میں ملازمت کرنے والے کون ہیں ، ان کی تعلیم کتنی
ہیں اور کب سے ملازت کررہے ہیں. چلو یہ تو ایک طرح سے سیکورٹی کیلئے اچھا
اقدام ہے لیکن مہمانوں اور رشتہ داروں کے بارے میں پوچھنا. عقلی دلیل میں
نہ سمجھنے والی بات ہے. ویسے یہ پولیس ہے کس لئے`شہریوں کی سیکورٹی کیلئے ،
تنخواہیں انہیں شہری ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں. اگر یہ لوگ حیات آباد
جیسے پوش علاقے میں اپنی سہولت کیلئے یہ سلسلہ شروع کررہے ہیں تو پھر حیات
آباد سیف سیکورٹی فورس کے نام پر ایک ہزار سے زائد اہلکاروں کی ضرورت کیا
ہے جس کی ادائیگیاں بھی شہریوں سے لی جارہی ہیں-
نہ سمجھنے والی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی مہمان کسی کے گھر جائے اور میزبان
اس سے یہ پوچھے کہ آ پ کی عمر کیا ہے اور آج کل کیا کرتے ہیں .تو یہ وہ
سوال ہے جس پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خیر تو ہے کہیں آپ نے ہمارا
رشتہ تو نہیں کروانا. یا پھر آپ نے میرے لئے کوئی روزگار ڈھونڈ نکالا ہے جو
اس طرح کی معلومات مجھ سے لے رہے ہیں. اگر کرایہ دار معلومات نہیں دینگے تو
بھی مسئلہ ہے اور اگر جو معلومات دیدی ہیں اس کے برخلاف کوئی اور مہمان یا
رشتہ دار کرایہ دار کے گھر میں آگیا تو پھر کیا ہوگا. خرچہ پانی کا
سلسلہ..ویسے مثالی پولیس کے دعوے تو تبدیلی والی سرکار بہت کرتے ہیں کیا
اسے بھی مثالی پولیس کا کارنامہ قرار دیا جائے .اصلاحات کے نام پر پولیس
میں کتنی اصلاحات ہوئی اور کتنی این جی اوز نے فنڈ کھا لئے. کتنے اہلکاروں
نے ذاتی فائدے حاصل کئے.
مثالی پولیس کا تو یہ کارنامہ ہے کہ اس سے پہلے ایزی لوڈ دور میں ایزی کام
ہوتا تھا اب بھی تقریباوہی سلسلہ ہے لیکن ذرا سا سسٹم تبدیل ہو کر رہ گیا
ہے جس کی مثال اب یہی ہے کہ ٹریفک پولیس لائسنس بھی جاری کرتی ہے اور یہ
واحد صوبہ ہے جس میں دو ادارے ڈرائیونگ لائسنس جاری کرتے ہیں.جس میں ایک
ٹرانسپورٹ اور دوسرا ٹریفک پولیس، اور رہی تھانوں کی پولیس تو اتنی مثالی
ہے کہ اگر کوئی ان کی "حرام خوری"کی ویڈیوبنا لے تو پھر "دغہ دغہ وائی
وائی" یعنی بغیر کسی قانون کے حوالات کے اندر. خواہ وہ صحافی ہی کیوں نہ
ہوں کیونکہ یہ آسمان سے اتری ہوئی مخلوق ہے . اوروہاں ٹریفک پولیس میں
تعینات اہلکاروں کو موبائل کیمرے دئیے گئے تاکہ اگر کوئی افسر / وزیر یا
سرکاری اہلکار دوران چیکنگ غلط کام کرے تو اس کا پروف ان کے پاس ہو.جو کہ
سیکورٹی ناکوں میں بھی تعینات اہلکاروں کو مخصوص آلات دئیے جاتے ہیں لیکن
مثالی پولیس اتنی مثالی ہے کہ گدھا گاڑی اور عام لوگوں کو پکڑ کر ویڈیو بنا
کر فیس بک پر ڈال رہی ہیں. جیسے انہوں نے بڑا تیر مار لیا ہے.ویسے یہ کس
قانون کے تحت شہریوں کے ویڈیو بنا کر ڈال رہے ہیں. گذشتہ پانچ سالوں میں
کسی نے ان سے پوچھنے کی ہمت تک نہیں کی.لیکن..
ایک بات ہے کہ جس طرح کی تبدیلی صوبائی حکومت فیس بک پر لیکر آئی ہیں .
اتنا تو حق پولیس کا بھی بنتا ہے کہ وہ بھی اپنی تبدیلی فیس بک کے ذریعے
دنیا کو بتا دیں کہ ہم لوگوں نے " بڑا تیرمارا ہے"
|