چار موسم اور انسانی زندگی

موسم یا زندگی کا کوئی مرحلہ آپکو شکست نہیں دے پائے گا، یقینن جناب آپ اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی سرخرو ہو جائیں گے۔

ﷲ تعالی نے دنیا کو چار موسم عطا کئے، بہار، گرمی، سردی اور خزاں۔ ہر انسان کی زندگی ان چار موسموں کی طرح ہوتی ہے، سب سے پہلے بات کرتے ہیں بہار کی، یہ انسان کا بچپن ہوتا ہے، جسطرح بہار میں ایک درخت کی نئی شاخیں نکلتیں ہیں، نئے پتے اگتے ہیں، نئے پھل اور پھول لگتے ہیں، بالکل اسی طرح بچپن میں انسان کی جسمانی نشونما ہوتی ہے، یہ انسان کی زندگی کا سب سے سنہرا دور ہوتا ہے، اس دور میں انسان کیلئے سب اچھا ہوتا ہے، اس پر کوئی فکر یا ذمہ داری نہیں ہوتی، یہ آزاد ہوتا ہے، اانسان پنی زندگی کے اس مرحلے کو خوب انجوائے کرتا ہے، چونکہ اس مرحلے میں انسان پریشانیوں اور ذمہ داریوں سے عاری ہوتا سو وہ ہر قسم کی بیماریوں سے بھی پاک اور صاف ہوتا ہے۔ کیونکہ 90 فیصد بیماریوں کی بنیادی وجہ ہی ٹینشن لینا ہوتی ہے۔

دنیا میں دوسرا موسم گرمی کا ہوتا ہے، اور انسان کی زندگی کا یہ مرحلہ اسکی جوانی ہوتی ہے، انسان کی زندگی کے اس مرحلے یعنی کے جوانی پر انسان کی پوری زندگی منحصر کررہی ہوتی ہے، انسان زندگی میں آگے جاکر کیا بنے گا کیا کھوئے گا کیا پائے گا سب اس جوانی پر منحصر کر رہا ہوتا ہے، درخت ڈٹ کر گرمی کی شدت کا مقابلہ کرتا ہے کیونکہ یہ تازہ تازہ موسم بہار سے نکلا ہوتا ہے اسکی جسمانی نشوونما اچھی ہوتی ہے، بالکل اسی طرح انسان بھی جوانی میں مضبوط ہوتا ہے، کھٹن سے کھٹن کام کرنا پسند کرتا ہے، زندگی کے اس مرحلے میں انسان تعلیم حاصل کرتا ہے، پروفیشنل لائف میں آتا، شادی کرتا ہے، خواب دیکھتا ہے، اور ان خوابوں کو سچ کرنے میں دن رات ایک کرتا ہے، اس مرحلے میں انسان کی سوچ اور جسم کافی مضبوط ہوتا ہے سو وہ ہر مصیبت برداشت کرلیتا ہے، ناممکن کو ممکن کرسکتا ہوتا ہے۔ بلاشبہ زندگی کے اس مرحلے میں ہر انسان اپنی مثال آپ ہوتا ہے، کسی پنجابی شاعر نے کیا خوب کہا
گئی جوانی ہتھ نہیں آنیں
باویں لکھ خوراکاں کھائیے
سو زندگی کے اس مرحلے میں انسان ایک پتھر کی مانند ہوتا ہے، جو لوہے کے چنے تک چبا جاتا ہے، بھوکا رہ کر ہفتوں کا کام دنوں میں کرتا ہے کیونکہ اس مرحلے میں انسان کے کندھوں پر نئی نئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، سو جوانی میں ایک انسان جنونیت اختیار کرجاتا ہے۔

دنیا میں تیسرا موسم سردی کا ہوتا ہے، جبکہ انسان کی زندگی کا یہ مرحلہ اسکی درمیانی زندگی ہوتا ہے، جسطرح اس مرحلے میں ایک درخت خوب پھل دیتا ہے، اسی طرح اس مرحلے میں انسان خوب روپیہ پیسا کماتا ہے، یہ انسان کی زندگی کا سب سے کٹھن مرحلہ ہوتا ہے، انسان پر بے بہا ذمہ داریاں عائد ہوجاتیں ہیں، اپنی اولاد کو پڑھانا ہوتا ہے پھر انکی شادی بیاہ سمیت ہر فرض عائد ہوجاتا ہے، انسان کی ٹینشن اور کام بڑھ جاتا ہے، سو اکثر انسان کو اس مرحلے میں کوئی نہ کوئی بیماری بھی لاحق ہوجاتی ہے، انسان دن بدن پیچھے چلتا جاتا ہے، انسان چاہ کر بھی ہمت نہیں ہار سکتا کیونکہ اس مرحلے میں اگر وہ ہمت ہار دے تو پھر نہ انسان انسان رہتا ہے اور نہ ہی اسکا گھر گھر رہتا ہے۔ سو یہ انسان کی زندگی کا سب سے نازک ترین اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔

دنیا کا آخری موسم خزاں کا ہوتا ہے، جسطرح خزاں کے موسم میں ایک درخت کے پھل اور پتے جھڑ جاتے ہیں، بالکل اسی طرح اس مرحلے میں انسان پر بیماریاں حاوی ہوجاتیں ہیں، اسکے اندر کام کی سکت نہیں رہتی ہے، کیونکہ وہ بوڑھا ہوچکا ہوتا ہے، اسکا جسم اسکا ساتھ نہیں دے رہا ہوتا ہے، سو وہ محتاج ہوکر رہ جاتا ہے، آپ اپنے ارد گرد کی مثال لے لیں، جب ایک درخت بوڑھا ہوجاتا ہے، وہ پھل اور پھول اگانے بند کردیتا ہے، اسکی چھاوں میں بھی وہ تاثیر اور ٹھنڈک کا احساس نہیں رہتا تو وہ اس زمین پر دنیا کیلئے ایک بوجھ اور رکاوٹ بن جاتا ہے، سو لوگ ایسے درخت کو کاٹ دیتے ہیں، اسکی سوکھی لکڑی کو جلا کر اس سے سردی میں ہاتھ پاوں گرم کرتے ہیں، مزے مزے کے کھانے پکاتے ہیں، بالکل اسی طرح جب ایک انسان بوڑھا ہو جاتا ہے، وہ اپنی ساری کمائی ہوئی دولت اپنی اولاد پر نچھاور کردیتا ہے، اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کو ڈاکٹر اور انجینئر بنا دیتا ہے، جب اس کے پاس سوائے دن گزارنے کے اور موت کا انتظار کرنے کے کچھ نہیں ہوتا تب وہ سب کو کھٹکنے لگتا ہے، اس کو دو وقت کی روٹی، آٹھ گلاس پانی کے اور ایک شلوار قمیض کیلئے نہ جانے کتنی باتیں اور کتنے تلخ لہجے سننے اور سہنے پڑتے ہیں۔

دنیا میں ایک ہی تصور قابل قبول ہے، وہ ہے ” بیوقوفی “، جب تک آپ بیوقوف ہیں، اپنے فائدے اور نقصان کی پرواہ کئے بغیر دنیا کے کام آرہے ہیں، سب کچھ جانتے ہوئے بھی آپ اپنا نقصان کرکے دنیا کو فائدہ پہنچا رہے ہیں، تب تک آپ سب کیلئے اچھے ہیں، دنیا آپکے تابع ہے، یہ آپکی عزت بھی کرے گی، آپکا کہا سر آنکھوں پر رکھے گی، لیکن تب تک جب تک کے آپ جانے پہچانے بیوقوف ہیں، لیکن جس دن آپ سمجھ دار ہوگئے، آپ نے بیوقوفی چھوڑ دی، سماج کے فائدے کے بجائے اپنی ذات کے فائدے کا سوچ لیا، اس دن آپ بالکل اکیلے پڑ جائیں گے، ہر وقت آپکے ساتھ رہنے والے، آپکو اپنا سب کچھ سمجھنے والے، آپکی آنکھوں کے تارے، آپکے تابع، آپکے موسٹ فیورٹ لوگ آپکا فون تک نہیں اٹھائیں گے، یہ آپکے پیٹھ کے پیچھے آپکی باتیں بھی کریں گے، آپکو برا بھلا بھی کہیں گے، کیوں ؟ کیونکہ آپ ان سے ایک قدم دور ہوئے اپنے فائدے کا سوچا سو یہ آپ سے سو گز دور ہوگئے، انکی نظر میں آپ دنیا کے غلط ترین انسان ہوں گے، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کے آج رشتے وفا پرستی کے بجائے مفاد پرستی پر قائم ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کے آپ زندگی کے ہر مرحلے میں کامیاب ہوں، لوگ آپکی عزت بھی کریں، آپکا ساتھ بھی دیں، آپکے ساتھ مخلص بھی رہیں، آپکو زندگی کے آخری سٹیج پر محتاج بھی نہ ہونا پڑے تو پھر اپنا تجزئیہ کرنا سیکھ لیں، اپنی زندگی کے ہر موسم، ہر مرحلے، ہر لمحے کا تجزئیہ کریں کے آیا آپ نے اب تک کیا کھویا کیا پایا ؟ آپکی کامیابی میں کیا راز ہے تو آپکی ناکامی کن وجوہات کی بدولت ہوئی، میں ہر روز رات سونے سے پہلے اپنے دن کا تجزئیہ کرتا ہوں اور الحمداللھ ان مسائل سے بہت پرے ہوں، میں کسی سے امید بھی نہیں لگاتا اور کسی بھی چیز کو مستقل بھی نہیں سمجھتا، میں نئے رشتے بھی نہیں بناتا، اور لوگوں سے ملتا بھی بہت کم ہوں، آپکی کامیابی کا راز اسی میں ہے کے آپ اپنے چھ فٹ کے جسم، تین سو گرام کے دل اور تین سو گرام کے دماغ کو ﷲ تعالی کی مرضی کے مطابق ڈھال لیں، آپکی زندگی پرسکون ہوجائے گی، دنیا سے ناطہ توڑ کر اس مالک و ملک سے رشتہ جوڑ لیں پھر دنیا آپکے پیچھے ہوگی، پھر کوئی مصیبت بھی آپکے سامنے نہیں آئے گی، موسم یا زندگی کا کوئی مرحلہ آپکو شکست نہیں دے پائے گا، یقینن جناب آپ اس دنیا میں بھی اور اس دنیا میں بھی سرخرو ہو جائیں گے۔

طالب دعا !
 

Danish Ali Awan
About the Author: Danish Ali Awan Read More Articles by Danish Ali Awan: 3 Articles with 2427 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.