دتے کے گھر کے مالی حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔ ایک دن
تنگ آ کر دتہ پنڈ سے چپ چاپ غائب ہو گیا۔
پنڈ سے نکل کر وہ ایک مدرسے جا پہنچا۔ مدرسے کے مولوی صاحب سے اس نے کہا کہ
وہ قرآن پاک حفظ کرنا چاہتا ہے۔ انگوٹھا چھاپ دتے نے مولوی صاحب کی کچھ اس
طرح منت سماجت کی کہ مولوی صاحب کا دل پسیج گیا۔ انہوں نے دتے کو قرآن پاک
حفظ کروانا شروع کر دیا۔ دن رات محنت کر کے دتے نے ایک سال میں قرآن پاک
حفظ کر لیا۔
قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد دتہ اسی طرح خاموشی سے پنڈ واپس آ گیا۔ پنڈ کے
لوگوں نے نہ اس کے غائب ہونے کا نوٹس لیا تھا اور نہ ہی واپس آنے کا، میرے
اور میرے ساتھ والے پنڈ کے لوگ ایسے ہی ہیں۔
دتہ سارا دن خاموشی سے پنڈ میں مٹر گشت کرتا رہتا۔ چھ ماہ گزرنے کے بعد ایک
دن وہ پنڈ کی مسجد کے بلند مینار پر چڑھ گیا۔ اس زمانے میں لاؤڈ اسپیکر نہ
ہونے کی وجہ سے لوگ مسجد کے مینار پر چڑھ کر اعلان یا اذان دیا کرتے تھے۔
دتے نے مینار پر چڑھ کر، چیخ کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ
پچھلی رات جب میں سو رہا تھا تو خواب میں آ کر ایک فرشتے نے مجھے سینے سے
لگایا ۔ سینے سے لگاتے ہی مجھے قرآن پاک حفظ ہو گیا۔ لوگو یہ بہت بڑی کرامت
ہے جو میرے ساتھ ہو گئی ہے۔ ان پڑھ دتے کے منہ سے یہ دعویٰ سن کر پنڈ والے
ششدر ہو کر رہ گئے۔
مسجد کے مولوی صاحب بھی اعلان سن کر گھر سے باہر نکل آئے۔ پنڈ والے سب کے
سب بھی چوھدری سمیت مسجد کے گرد جمع ہو گئے۔ پنڈ کا چوھدری حقے کا کش لگا
کر بولا "اوئے دتے تیرے پاس کیا ثبوت ہے اپنے دعوے کا؟ دتہ بولا چوھدری جی
مجھ سے پورا قرآن پاک سن لو ۔ اس کے ساتھ ہی اس نے بلند آواز میں قرآت شروع
کر دی۔پنڈ والے دتے کی قرآن پاک کی روانی دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ ادھر دتہ
آنکھیں بند کئیے تلاوت میں مشغول تھا۔ میرے پنڈ کے اور ساتھ والے پنڈ کے
لوگ ایسی کرامات دیکھنے کے حد سے زیادہ شائق ھیں۔ چٹے انپڑھ دتے کی اس
کرامت نے ان کو پاگل سا کر دیا۔ تلاوت کے دوران چند جوشیلے دیہاتیوں نے
نعرہ تکبیر لگانا شروع کر دیا۔ پنڈ کے مرد و زن جوش و خروش سے نعروں کے
جواب دینے لگے۔
مولوی صاب کا پورا دھیان دتے کی تلاوت کی طرف تھا وہ دتے کی غلطی پکڑنا
چاہتے تھے۔ لیکن دتہ کی تلاوت میں ان کو کوئی غلطی نہیں مل رہی تھی۔ بالآخر
مولوی جی نے اعلان کیا کہ دتہ کی کرامت حق پر مبنی ہے۔ مولوی جی کی بات سن
کر پنڈ والوں کے جذبات اپنے عروج پر پہنچ گئے۔ کچھ تو خوشی سے دھاڑیں مار
مار کر رو رہے تھے۔ میرے پنڈ کے اور میرے ساتھ والے پنڈ کے لوگ ایسے ہی
خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ جذباتی ہو کر مینار پر چڑھنے لگے ۔ انہوں نے
اوپر پہنچ کر دتے کے ہاتھ پاؤں چوم کر عقیدت کا اظہار کیا اور اپنے آپ کو
ان خوش نصیبوں میں شمار کرنے لگے جنہوں نے سب سے پہلے دتے کے ہاتھ پاؤں
چومے تھے۔ خیر ان عقیدت مندوں نے آنکھیں بند کر کے تلاوت کرتے ہوئے دتے کو
اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور بہت احترام سے مینار سے نیچے اتار لائے جبکہ
دتہ ہنوز آنکھیں بند کئیے تلاوت میں مشغول تھا۔دتے کے مینار سے نیچے اترتے
ہی چوھدری نے روتے ہوئے اپنے کھیسے میں سے ہاتھ ڈال کر دس کا نوٹ نکالا اور
دتے کے مٹھی میں دے دیا۔ باقی گاؤں والے بھی حسب توفیق دتے کی خدمت کرنے
لگے۔
دتہ پیر بن چکا تھا۔ اس کو کندھے پر اٹھا کر گھر پہنچایا گیا۔ نہلا دہلا کر
نیا جوڑا پہنایا گیا۔ اس کے بعد لنگر کا اہتمام کیا گیا۔ وہ دتہ جس کو اپنی
دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے تھے اب اس کے لنگر پر غریب آ آ کر اپنا
پیٹ بھرنے لگے۔ قوالوں نے مستقل دتے کے گھر پر ڈیرے لگا لئے محفل سماع کا
اہتمام کیا جانے لگا۔ جس میں لوگوں پر حال (وجد) طاری ہوتا۔ دتے کو اونچی
سی مسند پر بٹھا کر اس کے سامنے قوالیاں کی جاتیں۔ کھسرے وغیرہ بھی مجرے
پیش کرتے یعنی اس کا گھر پورا پورا دربار بنا دیا گیا تھا۔ قصہ مختصر دتے
کے مرنے کے بعد باقاعدہ عرس بھی کیا جانے لگا۔ ایک بار مدرسے والے مولوی
صاحب بھی دربار پر منت مانگنے آئے ان کو بتایا گیا تھا کہ یہ ایک کرنی والے
پیر کا دربار ہے جہاں منتیں مانی جاتی ہیں اور ہر کام ہو جاتا ہے۔ مولوی کو
پیر کی کرامت کے بارے بتایا گیا۔ مزار پر لگی فوٹو دیکھ کر بوڑھے مولوی جی
کو اپنا شاگرد یاد آگیا۔ ساری کہانی سمجھ کر مولوی نے مریدوں کو اصل کہانی
بتانے کی کوشش کی مگر مریدوں نے مولوی کی ٹھکائی شروع کر دی وہ دتہ پیر جی
کے خلاف ایک لفظ بھی سننے پر تیار نہ تھے بمشکل مولوی جان بچا کے بھاگے اور
پھر دوبارہ دربار کے قریب بھی جانے کی انہوں نے کوشش نہ کی۔ |