آج کل کے دور میں مساجد کو محض نمازگاہ کے طور پر استعمال
کیا جا رہا ہے اور اس نمازگاہ کا ایک (Main Manager) ہم نے مقرر کیا ہوا ہے
جو نمازیوں سے چندہ وغیرہ اکٹھا کر کے اس نمازگاہ کو Manage کرتا ہے اور اس
چندہ میں سے اپنا خرچہ نکال کر باقی مسجد کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرتا ہے
اور کچھ مساجد کی کمیٹی وغیرہ بنی ہوتی ہے جو محلہ میں اپنا نام بنانے کے
لیے اس کمیٹی کے ممبر بنتے اور اس مسجد کی تعمیر اور مولوی یعنی (Mosque
Manager) کے لیے چندہ اکٹھا کرنے میں مدد کرتے ہیں ہماری عوام نے ہر مسٔلہ
کا حل تلاش کرنے کے لیے مولوی کا سہارا لینا شروع کیا ہوا ہے مثلاً بچہ
پیدا ہونے کے بعد اسکے کان میں آذان دینا ؟؟؟ حالانکہ یہ کام کویٔ اتنا
مشکل نہی ہے یہ کام بچے کا باپ خود با آسانی کر سکتا ہے ۔۔ پھر کسی کے گھر
میں خدانخواستہ اگر کسی کی وفات ہوجاے ٔ تو دعا کے لیے مسجد کے مینجر کو
بلایا جاتا ہے شاید انکا کویٔ اﷲ تعالیـ کیساتھ خاص قسم کا لنک ہے ـ۔۔!
جبکہ ہم سب کو اﷲ تعالی نے نے پیدا کیا ہے پھر ایک نبیؐ کی امت بھی بنایا
لیکن ہماری عوام ماشااﷲ اب کرتی کیا ہے ؟؟؟ کہ اپنے نبی محمدؐ کی زندگی کو
نہیں پڑھتے اور نا ہی انکے فرامین زیرِ غور لاتے ہیں بس ہر کام مسجد کے
مینجر سے کروانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ یہ مسجد جو آج کل محض نماز پڑھنے
کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔۔۔ میری نظر میں یہ ہمارے مسلمانوں کے کلب ہیں اب
کلب سے مراد ہماری عوام کی نظر میں صرف عیاشی کے اڈے ہیں اور کچھ نہیں ۔۔
مگر یہ Concept میری نظر میں سو فیصد غلط ہے کیونکہ کلب سے مراد کمیونٹی
سنٹر ہے اور آپؐ کے دور میں مسجد کمیونٹی سنٹر ہے تھی ۔ کیونکہ یہاں پر
شادیاں بھی ہوتی تھیں ۔ اسکا مطلب مساجد میرج ہال بھی تھیں ۔
یہاں باقی ریاستوں کے حکمران اور باقی بڑے لوگ بھی تشریف لایا کرتے تھے ۔
یہاں مسافر بھی آ کر ٹھہرا کرتے تھے یعنی آپؐ کے دور میں مساجد مسافر خانہ
بھی تھیں ۔ یہاں مشاورتی اجلاس بھی ہواکرتے تھے یعنی ریاستی اور مذہبی
حوالہ سے لوگ آپس میں مشورے کیا کرتے تھے ۔
لیکن آج کل مساجد میں چلے جایٔں وہاں باقاعدہ دیوار پر لکھا ہوتا ہے دنیاوی
باتیں کرنا منع ہے ۔اب کویٔ یہ پوچھے کہ مسجد میں آکر انسان کونسے Planet
پر شفٹ ہو جاتا ہے ؟؟
رہتا تو دنیا میں ہی ہے اور دنیاوی معاملات جو روزمرہ پیش آتے ہیں ان مسائل
کو سمجھنے کے لیے کہاں جانا چاہیے؟؟ظاہر ہے مسجد میں بیٹھ کر اپنے مسلمان
بھائیوں سے مشورہ کر لیا جائے تو یہ باتیں کرنا بحکم منیجر منع ہیں۔ اب
یہاں پر تو بچوں کو تعلیم بھی دی جاتی تھی انکی کردار سازی کی جاتی تھی
یعنی مسجد ایک اسکول بھی تھی ، ہمارے ملاّ حضرات نے تعلیم کو دو حصوں میں
تقسیم کر دیا ہے ایک دنیاوی تعلیم اور دوسری اسلامی تعلیم حالانکہ مجھے آج
تک اس بات کی سمجھ نہی آئی کہ دین کو دنیا کے سامنے کھڑا کر کے آپس میں
لڑاتے ہیں جبکہ دین اسلام کو نبی کریمؐ کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ نے تا کہ دنیا
میں انصاف قائم ہو دنیا کے لوگوں کو جینے کی تمیز آئے ناجائز قتل و غارت کا
خاتمہ ہو سکے مگر آج کے دور میں یہاں پر تو معاملات ہی سارے الٹ ہیں جسکی
سب سے بڑی وجہ ہم نے دینی و شرعی مسائل کو سمجھنا چھوڑ دیا ہے اور بس جو
مولوی آواز لگا دے وہ حتمی فیصلہ بن جاتا ہے ۔
لہذا میری یہ سوچ نہیں ہے کہ لیڈر نہیں ہونا چاہیے ، یا مسجد کی انتظامیہ
نہی ہونی چاہیے ایسا بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ ہر ادارے کو چلانے کے لیے
ایک سربراہ کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہمارے اصل سربراہ اس امت کے وارث محمدؐ
ہیں وہ کس طرح مسجد کو Manage کرتے تھے یا مسجد میں کیا ( Activities
Perform) کرتے تھے یا مساجد میں اس وقت آپکی صدارت میں کیا کام سر انجام
پاتے تھے ان سب باتوں سے آج ہمیں بہت دور رکھا جا رہا ہے ملا حضرات اپنا
پیٹ بھرنے کے چکر میں صحیح با ت نہیں بتاتے ۔۔ حالانکہ اپنے باپ کا جنازہ
اگر اسکا بیٹا خود پڑھائے تو یہ حدیث کے مطابق یہ سب سے زیادہ افضل ہے مگر
ہم نے اس کام کے لیے مولوی مقرر کیا ہوا ہے کہ بس ہم اب اپنی ذمہ داریوں سے
بالاتر ہیں پھر اس کام لے لیے ہم مولوی کے ہاتھ کچھ پیسے تھما دیتے ہیں اور
بات ختم ۔۔ اسی لیے مولوی بھی یہ نہیں بتاتا کہ اگر اپنے باپ کا جنازہ اسکا
بیٹا خود پڑھائے تو یہ افضل ہے وہ اس لیے نہیں بتاتا کیونکہ اسکا اپنا خرچہ
پانی بند ہو گا اسکو کیا ضرورت ہے ان پنگوں میں پڑنے کی ؟؟؟
اسی لیے ہمیں اب اپنی سوچ تبدیل کرنا ہوگی کیونکہ مساجد ہماری بھی اتنی ہی
ہیں جتنی مولوی کی اور مساجد محض نمازگاہ نہیں ہے ۔۔۔ سوچیئے گا ضرور۔۔!
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایمان کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے بر سوں میں نمازی نابن سکا ۔(اقبال)
|