بات اسطرح سے ہے

اکثر کالم نگار اپنے کالموں کا آغاز کسی ایسی تاریخی داستان سے شروع کرتے ہیں ہیں کہ جسکا جاری وقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر چونکہ اخبار بین اور نظام سے تنگ لوگ کچھ اچھا پڑھنا چاہتے ہیں اس لیے وہ ان واقعات کو پڑھ کر خوش ہو جاتے ہیں . نہ ہم تحقیق کرتے ہیں اور نہ ہمارے کالم نگار - حال ہی میں میرے ایک صحافی بھائی نے مجھے پاکستان کے ایک کالم نگار کی کتاب کی تقریب رونمائی کا قصہ سناتے ہوئے یہ بتایا کہ اس تقریب میں کسی مہمان نے یہ کہا کہ اگر یہ موصوف پاکستان کے ریلوے کی لائینوں کی لمبائی اپنی مرضی کی لکھ دیں تو لوگ یقین کر لیں گے کیونکہ نہ انہوں نے لمبائی ماپنی ہے اور نہ لوگوں نے . کافی حد تک کچھ واقعات جنکا ہم ذکر سنتے ہیں من گھڑت ہوتے ہیں مگر وہ واقعات جو تاریخ میں پیش آئے ان پہ بہت کم لوگوں نے تحقیق کی.

کشمیری تہذیب بھی کچھ ایسی ہی ہے اسمیں بھی بہت کچھ ایسا ہے جو نہ کبھی بیان ہوا اور نہ اس پر تحقیق ہوئی. آزاد کشمیر کے لوگ جو آج بڑی تعداد میں یورپ میں آباد ہیں کبھی اپنے اسلاف کی تلاش میں نہ نکلے . چند پرانے خطوط اور مشہور واقعات ہی ان لوگوں کا اپنے اسلاف سے رابطہ جوڑتے ہیں . آج یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی داستانیں پرانی کتابوں ، مسافروں اور سیاحوں کی یاداشتوں اور ضعیف لوگوں کے ذہنوں میں دفن ہیں .

میں مسافر بھی ہوں اور سیا ح بھی مگر ابھی ضعیف نہیں ہوں . میں نے اکثر اپنے بزرگوں سے کچھ پرانی داستانیں سنی اور ان میں ایک چیز جو مشترک پائی وہ کہیں نہ کہیں سیف الملوک کا ذکر ہے. سیف الملوک بچپن میں میرے لیے صرف ایک شہزادے کی داستان تھا جو ایک شہزادی کی تلاش میں نکلتا ہے اور بہت سی مشکلات کے بعد اسے ڈھونڈھ نکالتا ہے . عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے لیے سیف الملوک کا مطلب ، اس شہزادے کی داستان اور اسکی داستان کی سبھی مشکلات کی شکل بدل گئی . یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں نے سیف الملوک کے مصنف کے مزار پر کئی بار حاضری دی ہے اور وہاں بیٹھے درویشوں کی زبانی اس کلام کو سنا ہے . اس کتاب کا ہر لفظ اپنے اندر ایک عجیب کا اثر رکھتا ہے .

سیف الملوک میں کہیں "پنجن" نامی ایک جگہ کا ذکر آیا ہے میں نے سوچا کہ سیاسی مضامین لکھنے اور بہری حکومت کو تحریری مشورے دینے کے بجائے کچھ اور لکھا جائے اور پنجن چلا جائے.

تو بات اسطرح سے ہے کہ میاں محمد بخش نے سیف الملوک میں لکھا ہے کہ اگر میری قبر بنجن کی چوٹی پہ ہوتی تو عوام میں اس کی بڑی مقبولیت ہوتی مگر چونکہ میری نسبت میرے مرشد سے ہے اس لیے میرا مقام ان کے پہلو میں ہی ہے .چلیں آج ہم پنجن چلتے ہیں اور ملتے ہیں یہاں کے لوگوں سے . آج سے تین سو سال پہلے رائے جلال خان نامی ایک نارمہ راجپوت سردار نے اپنے قبیلے کے ساتھ پنجن کی خوبصورت چوٹی کے دامن میں بسیرا کیا . پنجن پہ آباد مقامی سردار نے اس قبیلے اور رائے جلال خان سے جب خطرہ محسوس کیا تو ایک قاصد کی زبانی رائے جلال خان کو اپنی طرف سے دوستی کا بیغام اپنی بیٹی کے رشتے کی صورت بھجوایا . رائے جلال خان نے وہ رشتہ قبول کر لیا اور مقامی سردار کی بیٹی سے شادی پہ رضامندی کا اظہار کیا. مقامی سردار کی نیت اور منصوبے کچھ اور تھے وہ یہ چاہتا تھا کہ جب رائے جلال خان اس شادی میں اپنے قبیلے کے ساتھ آئے گا تو اسے اور اسکے ساتھیوں کو زہر آلود مشروب سے مار دیا جائے گا اور یوں آنکھ کا یہ بال ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا . کہتے ہیں ایک عورت جسکا تعلق مقامی سردار سے نہ تھے نے یہ بات سنی اور اس کا تذکرہ رائے جلال خان سے کرنے کا ارادہ کیا. پنجن کی پہاڑی پہ جو راستہ جاتا ہے وہ تب بھی اتنا ہی دشوار گزار ہوا ہو گا جتنا آج ہے . بارات راستے میں تھی جب وہ عورت رائے جلال خان کو ملی اور مقامی سردار کے عزائم سے آگاہ کیا . رائے جلال خان نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو حکم دیا کہ اسکی اجازت کے بغیر کوئی بھی میزبان علاقے میں کچھ بھی نہ کھائے گا اور نہ پیے گا. بارات پنجن کی چوٹی پہ پہنچی اور منصوبے کے تحت مشروب پیش کیے گے . رائے جلال خان نے وہ شربت ایک کتے کے سامنے ڈالا اس نے جیسے ہی وہ شربت چا ٹا مر گیا. کہتے ہیں ایک بڑی زور دار جنگ ہوئی اور اسمیں مقامی سردار مارا گیا اور رائے جلال خان فاتح پنجن ہو گیا. یہ نارمہ جاگیرداری کا اس علاقے میں آغاز تھا . رائے جلال خان کے تین بیٹے ہوئے جن کے نام رائے بخش خان ، رائے مرجان خان اور خان اعصاب خان تھے یہ تینوں اس جاگیر کے حکمران رہے . انکی کی جاگیرداری میں پنجن اور اسکے ساتھ جڑے بیشمار علاقے تھے اور اسی جاگیرداری کی نسبت سے پنجن کے پاس ہی نرمہ یا نرما ع نامی ایک علاقہ ہے جسے جاگیردار اور سفید پوش راجہ ولایت خان نے ١٩٤٧ تک اپنی جاگیر میں رکھا مگر پھر بعد کی صورتحال بدل گئی. تاریخ میں اس بات کا ریکارڈ موجود ہے کہ جو دستہ ١٩٤٧ میں افغانستان سے کشمیر میں جنگ لڑنے آیا اور جسکا سپہ سالار حضرت عالی تھا وہ بھی راجہ ولایت خان کا مہمان رہا . اسکے علاوہ راجہ ولایت خان کے دو بھائی بھی تھے جو جنگ عظیم اول اور دوئم میں برطانوی ہند کی فوج میں افریقہ اور فار ایسٹ میں تعینات تھے ان کے نام راجہ اشرف خان اور راجہ عبدللہ خان تھے .

پنجن کے لوگوں کا رجحان اکثر عسکری میدان کی طرف دیکھا گیا ہے اور ہر دور میں یہاں کے نوجوان افواج میں شامل ہوئے . پاکستان کی آزادی کے بعد ١٩٤٧ کی جنگ سے کارگل کی جنگ تک یہاں کے گرم خون نے پاکستان کی سرحدوں کو سینچا اور بہادری کی رسمیں کو کسک بازار (بنگلہ دیش) کے طویل ترین ساحل سمندر سے لیکر دنیا کے بلند محاز جنگ سیاہ چن تک نبھائی ہیں. میاں محمد بخش کا پنجن حقیقت میں پریوں کا دیش تھا مگر اب صورت حال بدل گئی ہے .اب یہ پنجن میرے لندن جیسا ہے . لندن میں ہر طرح کا شخص آباد ہے مگر وہ کسی کی تاریخ اور اپنی شناخت کو چھپائے پھرتا ہے ایسے ہی پنجن کے نارمے اپنے اسلاف کی قدروں سے بہت دور ہیں.

تحقیق کا جہاں بہت خوبصورت ہے اور اسمیں ڈوب کے اسلاف کی پہچان ہوتی ہے . آج بھی ہمارے لوگ کسی نہ کسی کے مشروب میں زہر ملا کے حکمرانی کے رستے ہموار کرتے رہتے ہیں . اس انجانے خوف کا سب سے بڑا نقصان تب ہوتا ہے جب ایک دن ہم وہی مشروب خود پی لیتے ہیں جسمیں وہ زہر ملا ہوتا ہے جسکو ہم دوسروں کے لے تیار کرتے ہیں. پنجن کو پہلے میں نے میاں محمد بخش کی آنکھ سے دیکھا تھا آج اپنی آنکھ سے دیکھتا ہوں تو سب بدلا بدلا لگتا ہے . یہ المیہ صرف پنجن کا نہی بلکہ پورے پاکستان اور آزاد کشمیر کا ہے . انہی باتوں کا تذکرہ میں اپنی آنے والی کتاب "میں اور وہ " میں کر رہا ہوں مگر جب جب تحقیقی سفر پہ نکلتا ہوں تو مجھے تاریخ کے یہ بابے پکڑ لیتے ہیں اور اپنے قصے بیان کرنے کو کہتے ہیں. وہ بابے اور ان کے حالات زندگی سچے تھے اسی لیے سیف الملوک کہ جسکا ایک حصہ پنجن جیسی جگہ پہ بیٹھ کہ لکھا گیا آج شاہ مکھی پنجابی ، پہاڑی یا میرپوری اور پوٹھاری کلام کا ایک انمول نمونہ ہے . اس کے شہزادے کی کہانی میں ہر وہ راز ہے جسکا تذکرہ حضرت اقبال کے شاہین میں اور غنی کے کلام میں ملتا ہے .

ہمارے کالم نگاروں نے سوائے عشق و محبت کی داستانوں اور قصے کہانیوں کے کچھ ایسا بیان نہ کیا جو ہمیں اپنی جڑوں سے جوڑے رکھتا . وقت گزرتا رہتا ہے اور یہ داستان گو تاریخ اور قوموں کے ساتھ مذاق کرتے رہتے ہیں یہاں تک کے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ یہی داستان گو جو کبھی اچھے لکھاری تھے بس یہی کہتے ہے
سنا ہے عشق نام کے گزرے ہیں ایک بزرگ
ہم لوگ بھی مرید اسی سلسلے کے ہیں
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 76374 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More