“ہائر ایجوکیشن کا لامتناہی امتحان: امیدوار کامیاب، وقت ناکام”


یہ 16 نومبر 2022 کی تاریخ تھی۔ ڈائریکٹوریٹ آف ہائر ایجوکیشن خیبرپختونخوا نے بڑے فخر سے اشتہار دیا: جونیئر کلرک، لیب اسسٹنٹ، ہوسٹل وارڈن اور امام کی آسامیاں خالی ہیں، آئیں اور اپلائی کریں۔ نوجوانوں نے بھی سوچا قسمت کا دروازہ کھل گیا ہے۔ کسی نے نئے جوتے پالش کیے، کسی نے قمیض استری کی، کسی نے دعا کی اور فارم بھر دیا۔ پھر آیا ایٹا کا امتحان۔ امیدواروں نے رات رات جاگ کر تیاری کی، ایم سی کیوز رٹے، دوستوں کے ساتھ چائے کرسی قربان کی۔ امتحان ہوا، نتیجہ آیا، میرٹ لسٹیں لگیں۔ گھروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ماوں نے مٹھائیاں بانٹیں، باپوں نے کہا: “بیٹا اب تو سرکاری نوکر بن گیا۔” خواب ایسے جگمگا رہے تھے جیسے نیا بلب واپڈا کے گودام میں۔اور پھر۔۔۔ خاموشی۔

یہ وہ خاموشی نہیں جو سکون دیتی ہے، بلکہ وہ جو بیوروکریسی دیتی ہے۔ ایسی خاموشی جس میں حکومتیں بدلتی ہیں، فائلوں پر گرد جمتی ہے، اور امیدوار بال دودھ کی طرح جلدی پرانے ہو جاتے ہیں۔تین سال بعد…
اب آج کی تاریخ ہے 22 اگست 2025۔ ہاں، بالکل تین سال گزر گئے۔ جو امیدوار اس وقت فریش گریجویٹ تھے، اب انہیں محلے کے بچے “انکل” کہہ کر بلاتے ہیں۔ کچھ کے بال گرنے لگے ہیں، کچھ اپنے بچوں کو اسی امتحان کی تیاری کروا رہے ہیں۔

اس دوران حکومتیں اتنی بار بدلیں جتنی بار کرکٹ ٹیم کا کپتان۔ ہر نیا وزیر آیا، تقریر کی: “نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں۔” ربن کاٹا، فوٹو کھنچوائی اور بھرتی کی فائل وہیں رکھ دی جہاں ملی تھی — کسی افسر کے چائے کے کپ کے نیچے۔

پھر اچانک مئی 2025 میں ایٹا کو ہوش آیا۔ پیغام بھیجا: “5 مئی تک اپنے کاغذات جمع کرائیں۔” امیدواروں نے خوشی سے چھلانگیں لگائیں۔ کچھ نے سوچا: “آخرکار حکومت جاگ گئی۔” سب نے نئے فولڈر خریدے، فوٹو کاپیاں نکلوائیں، اور مقامی نوٹری سے مہر لگوائی جیسے قومی سلامتی اسی پر لٹکی ہو۔

کاغذات جمع کرادیے گئے۔ فیس بک پر اسٹیٹس لگنے لگے: “جلد خوشخبری ان شائ اللہ۔” لیکن وہی “جلد” نکلا جو مکینک کہتا ہے: “بس پانچ منٹ اور۔”انتظار کا کھیل جاری ہے. آج بھی امیدوار ایسے انتظار کر رہے ہیں جیسے بس اسٹاپ پر کھڑے مسافر جہاں بس کبھی آتی ہی نہیں لیکن چائے والے امید بیچتے رہتے ہیں۔ کچھ امیدوار ہنستے ہوئے کہتے ہیں: “جب تک تقرری آئے گی ہم براہِ راست انٹرویو سے ریٹائر ہو جائیں گے۔” ایک نے تو مشورہ دیا: “یہ فائلیں اولڈ ایج ہومز ڈپارٹمنٹ کو بھیج دینی چاہییں۔”

ادھر ہائر ایجوکیشن کے افسران مصروف ہیں — اپنی تنخواہیں گننے میں، پانچ ستارہ ہوٹلوں میں “کیپیسٹی بلڈنگ” ورکشاپس اٹینڈ کرنے میں، اور سوشل میڈیا پر ٹویٹ کرنے میں کہ “نوجوان ہمارا مستقبل ہیں۔” بس یہی نہیں بتایا کہ مستقبل کو اسٹاپ واچ پر روک رکھا ہے۔ یہ مزاح ا±ن امیدواروں کے لئے حقیقت میں کڑوا زہر ہے۔ کئی نوجوان اپنی ڈگریاں مکمل کرکے صرف اسی روزگار کے خواب دیکھ رہے تھے۔ اب گھر والے روز پوچھتے ہیں: “بیٹا تقرری کا لیٹر آیا؟” رشتہ دار طنز کرتے ہیں: “اتنی پڑھائی کی اور اب بھی بے روزگار؟” امیدوار مسکرا کر موضوع بدل دیتے ہیں، کرکٹ پر بات چھیڑ دیتے ہیں۔اگر ذہنی دباو¿ کو ملازمت مان لیا جائے تو سب امیدوار آج مستقل ملازم ہیں۔

سوال یہ ہے: اگر بھرتی کرنی نہیں تھی تو اشتہار کیوں دیا؟ امتحان کیوں لیا؟ میرٹ لسٹ کیوں بنائی؟ اگر تین سال میں تقرری نہیں ہونی تو بہتر ہے کالجوں میں ایک نیا مضمون پڑھایا جائے: “دیریات 101: لامحدود انتظار کا تعارف”۔ کم از کم طلبہ ذہنی طور پر تیار ہو جائیں۔
ا
طنز اپنی جگہ لیکن معاملہ سنگین ہے۔ ہزاروں نوجوان معطل زندگی گزار رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈائریکٹوریٹ آف ہائر ایجوکیشن فوری طور پر فائلیں کھولے، واضح شیڈول دے اور بھرتی کا عمل مکمل کرے۔ ورنہ ہائر ایجوکیشن کے ساتھ صرف ایک چیز “ہائی” رہے گی — امیدواروں کا بلڈ پریشر۔فی الحال تو ان امیدواروں کے پاس ایک ہی راستہ ہے: انتظار کریں، بوڑھے ہوں اور شاید ایک دن اپنی لیگ شروع کریں جس کا نام ہو: “ایٹا سروائیورز پریمیئر لیگ”۔

#KPJobs #ETEA #YouthStruggle #HigherEducation #RecruitmentDrama #BureaucracyChronicles #WaitingGame #PakistaniComedy

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 752 Articles with 618163 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More