“تمغہ برائے خوشامد: پاکستان کے قومی ہیروز کا نیا نصاب”
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ہر سال 14 اگست کو ایک ہی رسم دہرائی جاتی ہے۔ ایوانِ صدر میں پرچم لہراتا ہے، بگل بجتا ہے، اور پھر ایک لمبی فہرست پڑھ کر سنائی جاتی ہے: فلاں گلوکار کو تمغہ، فلاں اداکار کو ایوارڈ، فلاں ٹی وی اینکر کو اعزاز۔ قوم خوش، سوشل میڈیا پر پوسٹیں، اور یہی کہانی ختم۔
لیکن سوال یہ ہے: کیا کسی سائنسدان کو کبھی یہ اعزاز ملا؟ کوئی ایسا سائنسدان جس نے فی ایکڑ گندم یا ٹماٹر کی پیداوار بڑھانے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہو؟ یا ایسا آبی ماہر جو بارش اور سیلاب کے پانی کو کارآمد بنانے کی ترکیب ایجاد کرے؟ جواب: “جی نہیں، ہمارے ہیروز کا تعلق زیادہ تر مائیکروفون، فلم کیمرے یا پروٹوکول گاڑی سے ہوتا ہے۔”ڈاکٹر اور انجینیئر کہاں ہیں؟
ذرا سوچیے، کوئی ایسا ڈاکٹر ملا جس نے انسانوں یا جانوروں کی کسی بیماری کی دوا ایجاد کی ہو؟ کوئی انجینیئر جس نے تعمیرات، طبی یا کیمیائی شعبے میں کوئی نئی ایجاد کی ہو؟ نہیں جناب! یہاں تو ایجاد صرف یہ ہے کہ کس طرح زیادہ خوشامد کرنی ہے، کس طرح “باس” کے سامنے مسکراہٹ کو زیادہ چمکدار بنانا ہے۔ یعنی اگر کسی ڈاکٹر نے کورونا ویکسین پر کام کیا تو شاید وہ اگلے سال بھی انتظار کرے گا، لیکن اگر کسی بھانڈ نے یوٹیوب پر کامیڈی کلپ ڈالا ہے، تو صدارتی ایوارڈ اس کے گھر پہنچ جائے گا۔
اور ہمارے معیشت دان؟ واہ بھئی واہ! دنیا بھر میں ماہرین قرضوں سے نکلنے کے طریقے ڈھونڈتے ہیں، یہاں کے ماہرین قرض لینے کے نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں۔ اگر صدارتی تمغہ کسی معیشت دان کو ملنا ہو تو شاید اس کا عنوان ہو گا: “قرض مانگنے کا آرٹ”۔جب میراثی بنے قومی ہیروز تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے.
اب سوال یہ نہیں کہ ایوارڈ کس کو ملا؟ سوال یہ ہے کہ کس کو نہیں ملا! کیونکہ یہاں قومی ہیروز کا معیار یہ ہے کہ یا تو آپ گانا گا لیں، یا کسی ٹاک شو میں چیخ چیخ کر بحث کر لیں، یا پھر پروٹوکول کے ساتھ سیلفی کھنچوا لیں۔کبھی کبھی لگتا ہے کہ اگر کوئی جوتے پالش کرنے والا فنکارانہ انداز میں برش چلائے تو شاید اسے بھی "تمغہ برائے فنونِ لطیفہ" مل جائے۔
صحافیوں کی حالت بھی خوب ہے۔ ایوارڈ انہیں ملتے ہیں جو خوشامد میں ماسٹر ہوں۔ اور اب تو حالت یہ ہے کہ کچھ “ادبی ہیرو” دوسروں کی لکھی ہوئی تحریریں چرا کر اپنے نام سے پیش کرتے ہیں۔ پشتو میں کہتے ہیں: “پہ پردو غلو ٹیزونہ اچوی” یعنی دوسروں کی محنت پر اپنے نام کے ڈھول بجانا۔ایسے میں کسی سنجیدہ، بے باک صحافی کو ایوارڈ ملنا ایسے ہی ہے جیسے صحراء میں نلکے سے پانی نکل آئے۔
یہی ہے وہ قحط الرجال جس کی مثالیں ہم کتابوں میں پڑھتے تھے۔ اہلِ علم اور اہلِ فکر ایک طرف، اور تمغے بانٹنے والے کسی اور ہی دنیا میں۔ یہاں جتنا زیادہ خوشامد، جتنا زیادہ چاپلوسی، اتنا ہی زیادہ ایوارڈ۔ایک سائنسدان کی 20 سالہ تحقیق کو تو نظرانداز کیا جاتا ہے، لیکن ایک رات کے شو میں کسی اداکار کی ڈانس پرفارمنس کو “قومی خدمت” کہہ کر تمغہ دیا جاتا ہے۔ پاکستانی کامیابی کا فارمولا الگ ہے کیونکہ یہاں کامیابی کا فارمولا بڑا سادہ ہے: اگر آپ خوشامدی ہیں تو سو فیصد کامیاب۔ اگر آپ مکھن لگانے کے ماہر ہیں تو ڈگری کی ضرورت نہیں۔ اور اگر آپ کے پاس کوئی “بڑی سفارش” ہے تو پھر آپ کے ایوارڈ کا اعلان ہونے سے پہلے ہی آپ کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتی ہے۔ کیا خوبصورت نظام ہے! یہاں سائنسدان مائیکروسکوپ تلے پسینے میں ڈوبا بیٹھا رہتا ہے، مگر قومی ایوارڈ اس گلوکار کو ملتا ہے جو آٹو ٹون کے بغیر ایک لائن بھی نہیں گا سکتا۔ اصل سوال یہ ہے کہ جب ہمارے بچوں کو نصاب میں پڑھایا جائے گا کہ “قومی ہیروز وہ ہیں جنہیں صدارتی تمغے ملے”، تو وہ سوچیں گے: کیا قومی ہیرو وہ ہے جو نئی فصل ایجاد کرے؟ یا وہ جو اسٹوڈیو میں نیا گانا ریکارڈ کرے؟ کیا قومی ہیرو وہ ہے جو ملک کو قرضوں سے بچائے؟ یا وہ جو ٹی وی پر سب سے زیادہ شور مچائے؟ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ایوارڈ ملنے کا اصل معیار قابلیت یا محنت نہیں بلکہ تعلقات، خوشامد اور سفارش ہے۔ یہ ہے اصل قحط الرجال۔ تو جناب، جب تک کوئی سائنسدان آلو کی پیداوار بڑھانے کا طریقہ ڈھونڈے گا، اس سے پہلے کسی بھانڈ کو صدارتی ایوارڈ مل چکا ہو گا۔ اور جب کوئی معیشت دان قرضوں سے نکلنے کا حل بتائے گا، اس سے پہلے کسی اداکار کو “قومی خدمت” کے تمغے سے نوازا جا چکا ہو گا۔ پاکستان میں ایوارڈ کا مطلب ہے: “خوشامد زندہ باد، قابلیت مردہ باد”۔
#PresidentialAwards #PakistanComedy #NationalHeroes #FlatteryWins #RealTalentIgnored #QahatUrRijal #PakistaniSatire
|