سیدنا انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس مسلمان نے کوئی درخت لگایا اور اس کا پھل
آدمیوں اور جانوروں نے کھایا تو اس لگانے والے کے لیے صدقہ کا ثواب ہے (گویا
کہ یہ صدقہ جاریہ ہے)۔‘‘(صحیح بخاری)
اﷲ کریم نے زندگی گزارنے کے بہترین اصول ہمیں عطا فرمائے جن کی تفصیل آقا
ئے دو عالم حضرت محمد ﷺ نے فرمائی۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ لہذا
ہمیں سوچنا ہو گا کہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری کیسے پورا کرنا ہوں گی۔
قانونی ذمہ داریاں تو ہم کسی نہ کسی طرح ڈرتے ڈراتے پوری کرنے کی کوشش کرتے
ہیں لیکن اخلاقی ذمہ داریاں ہمیں پوری کرنا کافی مشکل لگتا ہے۔ میں آپ کی
توجہ ایک اخلاقی ذمہ داری کی طرف مبذول کروانا چاہتاہوں یعنی درخت لگانا ۔
اس ذمہ داری سے ہم سب خبردار ہیں لیکن وقت کی کمی یا عدم توجہ سے اس ذمہ
دار ی کوپورا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے شاید اس لیے کہ اس کے اوپر خرچ کم اور
فوائد زیادہ ہیں لیکن اس کے برعکس جس پر خرچ زیادہ آئے بظاہر اچھی لیکن بے
شک یہ انسانی صحت کے لیے کتنی بھی نقصان دہ ہو ہم کر گزرتے ہیں۔ درخت لگانا
سنت ِ نبوی ﷺ ہے۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق کرہ ارض کی حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ
مستقبل قریب میں عالمی درجہ حرارت میں ۳ سے ۵ فیصد تک اضافے کے امکانات
پیدا ہو گئے ہیں، جس کے خطرناک نتائج برآمد ہونے کا اندیشہ ہے۔
ہم درخت لگانے کی بجائے دن بدن درختوں کو کاٹ کر کم کررہے ہیں۔ درختوں کی
کٹائی زندگی کی آرائش و زیبائش اور خوبصورتی کے لیے یا سٹرکیں بنانے میں بے
دریغ کر رہے ہیں۔ جس رفتار سے درخت کم ہو رہے ہیں اس سے کئی گناہ رفتار سے
ماحول میں آلودگی کا اضافہ ہو رہا ہے۔ قدرتی ماحول میں انسان کی بے جا
مداخلت سے کرہ ارض کے موسم میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔درختوں
کا کم ہونا نہ صرف ہمارے لیے سایہ کم کرتا ہے بلکہ آکسیجن میں تیزی سے کمی
آرہی ہے۔ جو سب سے زیادہ اہم پہلو ہے۔ ان تمام پراجیکٹ منیجر کی توجہ اس
طرف مبذول کروانا چاہتا ہو ں جو کروڑوں یا عربوں کا ہائی ویز بنانے کا
ٹھیکہ یا نئی کالونیاں اور ہاؤ سنگ سوسائٹیز بنا رہے ہیں،یہ سب کچھ اپنی
زندگی کی آسائش کے لیے ہے لیکن دوسری طرف اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی زندگی
تباہ و برباد اور زہر آلود کررہے ہیں۔ میری ان سے درخواست ہے کہ جس سٹرک ،
ہائی ویز یا ہاوسنگ سکیم کا پراجیکٹ شروع کرنا مقصود ہو، اس کا سروے کرنے
کے دوران جو درخت کاٹے جاتیں ہیں اسی سروے کے دوران یہ بھی سروے کیا جائے
کہ پراجیکٹس مکمل ہونے کے بعد درخت کہاں کہاں لگائے جا سکتے ہیں لہذا
پراجیکٹ شروع کرنے سے پہلے درختوں کی کٹائی کے ساتھ ہی دوسری جگہ نئے درخت
لگا دیئے جائیں تاکہ پراجیکٹ کے مکمل ہونے تک نئے درخت بھی کچھ نہ کچھ
قدآور ہو جا ئیں گے۔ درختوں کی کمی سے نہ صرف آکسیجن کم ہو رہی ہے بلکہ
ہواؤں اور بارشوں کی کمی کا بھی سبب بن رہا ہے۔ جس سے گرمی میں روز بروز
تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے خشک کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اور غذائی
قلت پیدا ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ لیکن سب سے بڑا خطرہ خود انسانی صحت
اور بقاء کیلئے پیدا ہو چکا ہے۔ اور انسان ہی خود اس کا ذمہ دار بھی ہے ۔ماحولیاتی
تبدیلیوں کی وجہ سے کینسر، ملیریا، اسہال اور دمہ وغیرہ جیسی بیماریوں کے
علاوہ غذائی کمی کے مسائل میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ان خطرات سے نمٹنے اور
انسانی صحت کے بچاؤ کی خاطر ماحول کی اصلاح کیلئے اجتماعی کوششوں کی ضرورت
ہے۔ ماحول کی اصلاح میں درخت انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں، کیونکہ درخت
جہاں ماحول کی خوبصورتی کا سبب بنتے ہیں وہیں ہوا کو صاف رکھنے، آندھی اور
طوفانوں کا زور کم کرنے، آبی کٹاؤ کو روکنے، آکسیجن میں اضافے اور آب و ہوا
کے توازن برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق
ایک بڑا درخت ۶۰ ننھے منے بچوں کو آکسیجن مہیا کرتا ہے جبکہ۱۰ بڑے درخت نہ
صرف ایک ٹن ائیر کنڈیشنر جتنی ٹھنڈک پیدا کرتے ہیں بلکہ ساتھ ہی فضائی
آلودگی اور شور کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گندے نالوں کے
دونوں اطراف لگائے جانے والے درختوں کی جڑیں پانی میں موجود گندے مادوں کو
جذب کرکے ناگوار بو کم کرتی ہیں، جبکہ اس کے پتے اردگرد کے ماحول کو صاف
ہوا مہیا کرتے ہیں۔
ماہرین کی رائے ہے کہ کسی بھی ملک کا ۵۲ فیصد رقبہ جنگلات سے ڈھکا ہونا
چاہئے۔ اس تناسب سے اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے صرف ۴ اعشاریہ ۸ فیصد
رقبے پر جنگلات ہیں، تاہم صوبہ خیبر پختونخواہ میں یہ تناسب ۷۱ فیصد
ہے،پاکستان میں جنگلات کا یہ رقبہ بالکل ناکافی ہے جس میں فوری اضافے کی
شدید ضرورت ہے، شجرکاری پر توجہ نہ دینے سے ایسا نہ کہ ہمیں آکسیجن پوری
کرنے کے لیے کوئی مہنگا ترین نعم البدل تلاش کرنا پڑے۔ماہرین کی رائے ہے کہ
ناکارہ اور بنجر زمینوں پر درخت لگائے جایں، کیونکہ یہ ان زمینوں کے
استعمال کا بہترین ذریعہ ہے، جبکہ بارانی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ درخت
لگا کر ہم انہیں چارے اور آمدنی کا متبادل وسیلہ بنا سکتے ہیں۔درخت لگاتے
وقت جدید زرعی تحقیقات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے درختوں کا انتخاب کیا
جائے جو بیک وقت غذا، ایندھن، جنگلی حیات کے فروغ اور زمین کی زرخیزی کیلئے
مفید ثابت ہوسکیں ۔میں تمام زمیندار بھائیوں سے درخواست کروں گا کہ کھیتوں
کے کناروں پر درخت لگانے سے بھی فصلوں پر مثبت اثرات رونما ہوتے ہیں،
کیونکہ یہ درخت کھیتوں میں ہوا، پانی اور درجہ حرارت کو اعتدال پر رکھتے
ہیں، جبکہ ان کی جڑیں زیر زمین موجود فاضل کیمیاوی مادوں کو استعمال میں
لاکر زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان درختوں پر رہنے والے پرندے
فصلوں پر آنے والے کیڑے مکوڑے کھا کر زرعی بیماریوں کی روک تھام کیلئے
قدرتی مدافعتی نظام بھی مہیا کرتے ہیں۔
ہمیں چاہیں کہ اپنے اپنے طورپر جہاں بھی ممکن ہو سکے پودے لگائے جائے، میرے
علم میں ایک ایسی بات بھی آئی ہے جس میں سن کر حیران ہو گیا کہ ایک ایسا
ملک بھی ہے جہاں پر ہائیر ایجوکیشن کی ڈگر ی اس وقت دی جاتی وہ اپنے تعلیمی
کیرئیر میں لگائے گئے پودے کی رپورٹ جمع کرواتا ہے۔ تو اندازہ لگائیں ایک
سال میں ہر یونیورسٹی سے کتنے بچے فارغ التحصیل ہوتے ہیں اگر ہم بھی ایسا
کوئی عمل شروع کریں تو بہت جلد فضائی آلودگی، آکسیجن کی کمی اور طرح طرح کی
بیماریوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ جب ایک گاری یا موٹر
سائیکل خریدتے ہیں تو براہ کرم اس کے ساتھ ہی ایک درخت ضرور لگائیں۔ اگر آپ
کو یہ معلوم ہو جائے کہ ایک لیٹر ایندھن کے جلنے سے کتنے لیٹر آکسیجن جلتی
ہے ، تو یقین جانیئے آپ پیدل چلنے اور درخت لگانے کو اولین ترجیح میں شامل
کر نے پر مجبور ہو جائیں گے۔
درخت ماحول کی اصلاح کے ساتھ آمدنی میں اضافے کا بھی بہترین ذریعہ ہیں۔
تجارتی مقاصد کیلئے ایسے درختوں کا چناؤ ضروری ہے جو جلد بڑھتے ہیں اور
زیادہ سے زیادہ صنعتوں میں ان کا استعمال ہوتا ہے۔ ان میں پاپولر، شیشم،
سیمل، سفیدہ، کیکر اور توت کے پودے جلدی بڑھ کر استعمال کے قابل ہو جاتے
ہیں، جبکہ ان کی لکڑی کھیلوں کے سامان، ماچس سازی، جوتا سازی، پلائی ووڈ،
چپ بورڈ اور فرنیچر سازی کی صنعتوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ توت کے پتے
ریشم کے کیڑوں کی بہترین غذا ہیں، لہٰذا ریشم کی پیداوار میں اضافے کیلئے
توت کاشت کرنا انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے۔
ہم سب کو مل کر ایک مہم کا آغا ز کرنا چاہیے ،گھر میں گملوں میں ہی پودے
لگائے جائیں جس سے نہ صرف آکسیجن میں اضافہ ہو گا بلکہ آپ کے گھر کا ماحول
بھی بہتر ہو گا۔ کم از کم گھرو ں میں ایلویرا زیادہ سے زیادہ اگائے جو
چھوٹے پودوں میں آکسیجن بم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں
مزید اپنے اپنے رہائشی علاقے میں تمام گلیوں اور بازاروں میں پودے لگائیں
جائیں جن سے رکاوٹ بھی نہ اور سایہ کے ساتھ ساتھ آکسیجن میں اضافے کا بھی
باعث بھی بنیں ، درخت لگانے سے خوبصورتی میں اضافہ ہو گا اور آلودگی کم ہو
گی۔ کچھ عرصہ پیچھے جائیں تو آپ غور کریں گاؤں اور شہروں میں تقریباً ہر
گلی محلے میں درخت ہوتے تھے، گرمیوں کے موسم میں بڑے چھوٹے سب مل کر ان کے
نیچے بیٹھا کرتے تھے۔ گرمی کا احساس کم ہو جاتا ہے سانس لینے میں بھی آسانی
ہوتی ۔ آج ہم جس قدر بظاہر ترقی کی منزلیں طے کر تے جا رہے ہیں ہم اپنی
زندگی کی سانسوں کو اتناہی مشکل کرتے جا رہے ہیں۔ اس پہلو پر ذرا سوچیں اور
عمل کرنے کی کوشش کریں، اور اخلاقی ذمہ داری پوری کریں۔آکسیجن ہماری زندگی
کے لیے لازم و ملزوم ہے، پودے قدرتی آکسیجن کے کارخانے ہیں۔ درخت قدرت کا
انمول تحفہ ہیں، اچھے شہری ہونے کے ناطے سے پودے لگانا اور ان کی حفاظت
کرنا ہر شہری کا فرض ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو حدیث مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے
پودے لگانے کی توفیق دے آمین۔
|