یکم مئی ! مزدور یا مجبور؟

اِس شہر میں مزدور جیسا کو ئی در بدر نہیں
جس نے سب کے گھربنائے اُس کا گھر کوئی نہیں
دنیا کے تقریبا ً ۸۰ ممالک میں آج یکم مئی مزدور ڈے کے طور پر منا یا جا رہا ہے ۔اِ س دن کا آغاز تب ہوا جب ۱۸۸۶ میں Haymarket میں ہو نے والے قتلِ عام کے نتیجے میں شکا گو کے ایک شخص نے پو لیس پر ڈائنا مائٹ بم پھینکا ۔ جس کی وجہ ایک عام ہڑتال کے دوران پو لیس کی ورکرز پر فائرنگ تھی ۔ ۱۸۹۱میں سیکنڈ نیشنل کا نگرس میٹینگ کے دران اِس دن کو منانے کے لیے مئی ڈے کا خطاب ملا ۔ جبکہ یوو نائنڈ اسٹیٹس اور کینڈا میں لیبر ڈے ستمبر میں منایاجا تا ہے ۔ زیا دہ تر ممالک میں یکم مئی کو لیبر ڈے کے طور پر منایاجا تا ہے ۔ اِس دن دنیا بھر میں مزدوروں کے لیے جلسے جلوس اور کا نفرسسز کا انعقاد کیا جا تا ہے ۔مزدوروں کے حق میں تقاریر کی جا تی ہیں ۔ اور اِس دن سر کا ری اور غیر سرکا ری دونوں اداروں میں چھٹی ہوتی ہے ۔ یہ چھٹی اِس لیے ہوتی ہے تا کہ ہم اِس دن کو منا سکیں اور ہم مناتے بھی ہیں ۔ بس ہم اِس دن کو مناتے ہی ہیں اِس کے علاوہ کچھ نہیں کرتے ۔ مختلف جلوس جلسے ، سیمینارز، تقرری مقابلے ، ٹی وی شوز اور بے شمار ایسے پرو گرامز جن میں ہم مزدورحضرات پر مبنی ڈاکیومنٹری ، تبصرے اور ڈرامے وغیرہ کرتے ہیں ۔اور بس اگلا دن شروع ۔۔

ایسے ہی بڑے بڑے پڑھے لکھے دانشور لوگ، شاعر حضرات ، سیاست دان اور بڑے بڑے لیڈر لیبر ڈے کے حوالے سے تقریبات منعقد کرتے ہیں ۔ بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں ۔ مزدوروں کے حق میں لمبی لمبی باتیں کرتے ہیں ۔ اور بس اگلا دن شروع ۔ ۔

اگر کبھی ایسی تقریبات میں جا نے کا اتفاق ہو تو ذرا غور کیجیے گا ۔ اِن تمام تقریبات میں آپ کو وہ حضرات نظر ہی نہیں آئیں گے جن کے لیے یہ تقریبات منعقد کی گئی ہو ں ۔ ایسا کیوں ؟ کیو نکہ وہ مزدور ہیں ۔ پہلی با ت یہ کہ اُنھیں کسی نے دعوت ہی نہیں دی ۔ چلوفرض کریں کہ مزدور کو دعوت دی بھی گئی ہو تو پھر بھی وہ تقریب میں نہیں جا ئے گا ۔ کیوں ؟کیوں کہ وہ مزدور ہے ۔ اُسے پتا ہے کہ اگر آج کام نہ کیا ، اگر آج مزدوری نہ کی تو گھر خالی ہا تھ لو ٹنا پڑے گا تو بچوں کو کھا نا کو ن دے گا ؟ وہ بچوں سے ڈرتا ہے کیونکہ بچے ہی اُسکا سب کچھ ہے ۔
جو موت سے نہ ڈرتا تھا بچوں سے ڈر گیا
اک رات خالی ہا تھ جب مزدور گھر گیا

کیا صرف بڑے بڑے جلسے کرنا اور درد مندانہ الفاظ ، آرٹیکلز اور تقاریر میں بولنا ہی لیبر ڈے ہے ؟ نہیں بلکہ اُن کے حق دلانا ، اُن کو ساتھ لے کر چلنا ، اُجرت وقت پہ دینا ، اُجرت بڑھا نا ، کام تھوڑا لینا، مزدور کو مزدور نہیں بلکہ انسان سمجھنا یہ تمام کام بھی لیبر ڈے کا حصہ ہیں ۔ جب ایک مزدور پچھلے چار دن سے بھوکا ہواُسے یہ درد بھرے الفاظ اور رسمی محبتیں اور ہمدردیاں کوئی تسلی نہیں دیتیں اور نہ ہی پیٹ بھرتی ہیں ۔ کیوں کہ مزدور آج بھی اِس سوال میں الجھا ہو ا ہے کہ
کھڑا ہو ں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ کہ کتا بوں نے کیا دیا مجھ کو

آج مزدور یہ سوال اُن پڑھے لکھے اور علم کے پیکروں اورد انشوروں سے کرتا ہے ۔ وہ یہ سوال مُلک کی بھاگ دوڑ اپنے ہا تھوں میں لیے اور بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے ہو ئے سیا ست دانوں سے کرتا ہے ۔ آج مزدور یہ سوال اُن لو گو ں سے کرتا ہے جو اُس سے کا م تو بہت لیتے ہیں مگر اُجرت نہیں دیتے ۔ اور اگر دیتے ہیں تو وقت پر نہیں دیتے ۔
دن بھر کی مشقت کا صلہ دیکھ لے صاحب
مزدور کو اُجرت میں فقط بھوک ملی ہے ۔

لیکن مزدور اُجرت نہ ملنے کے باجود بھی مزدوری کرنے پر مجبور ہے ۔ اِس لیے میں نے اِس مضمون کا نا م ’مزدور یا مجبور‘رکھا ہے ۔کیو نکہ مزدور مجبور ہی ہے ۔ وقت کے ہا تھوں سے اگر وہ مزدور ی نہیں کرے گا تو بچوں کو کھلائے گا کہاں سے اگر وہ مزدوری نہیں کرے گا تو زندگی کی دوڑ میں آگے کیسے بڑھے گا ۔
مزدور ہر دور میں مجبور ہی رہیں ہیں ۔ چاہے وہ شکاگو کے مزدور ہوں یا پھر ہمارے آج کے مزدور ہو ں ۔ مزدور ہمیشہ مجبور ہی رہیں ہیں ۔ کبھی حکمرانوں کے ہا تھوں تو کبھی مہنگا ئی کے ہا تھوں ، کبھی اُجرت کے ہا تھوں تو کبھی زندگی کے ہا تھوں ۔ بقول شاعر
یہاں مزدور کو مرنے کی جلدی یو ں بھی ہے محسن
کہ زندگی کی کشمکش میں کفن مہنگا نہ ہوجا ئے

اتفاق سے میں یکم مئی کو کسی کام سے جا رہا تھا تو سٹرک کنا رے ایک شخص سے پو چھا کہ بھا ئی آج ساری دکانیں بند کیو ں ہیں ؟ اور ٹریفک بھی بہت کم ہے ؟ اُس شخص کے کہا کہ ’’ آج میرا دن منایا جا رہا ہے ۔‘‘ اِس وجہ سے سبھی لوگ اپنے اپنے گھروں میں مزدور ڈے منا رہے ہیں جا نتے ہیں وہ شخص کو ن تھا ؟ وہ ایک مزدور تھا ۔ جو سٹر ک کنارے تپتی ہو ئی دھوپ میں کھدائی کر رہا تھا ۔

اگر ایسے ہی مزدور ڈے منانا ہے تو میں سمجھتا ہو ں کہ اِس دن کو منا نا چھوڑ دیں ۔ کیوں کہ جن کے لیے ہم یہ دن مناتے ہیں اگر وہ آرام نہیں کر سکتے ، وہ چین کی نیند نہیں سُو سکتے ، وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت نہیں بیتا سکتے تو کیا فائدہ چھٹی کرنے کااور اِ س دن کو اُن کے نام سے منسوب کرنے کا ؟

بڑھتی ہو ئی غربت نے مزدور کے مطلب کو ہی بدل دیا ہے ۔ مزدور کا لفظ سُنتے ہی ذہن میں تقریباً ۲۰ ۔ ۲۵ سال کی عمر کا انسان آتا تھا مگر آج حقیقت اِس کے برعکس ہے ۔ آج ۲۰۔ ۲۵ سال نہیں بلکہ ۵۔۱۰ سال کے مزدور آپ کو ہر دوسری دکان ، فیکٹری ، ورکشاپ، سڑک ، پھول بیچتے ہوئے ، ٹھیلہ لگاتے ہوئے اور چائے بیچتے ہوئے ملیں گے ۔ کیو ں ہے ایسا ؟ کیا ہم نے کبھی سوچا !نہیں نا !تو آئیں ذرا ملکر سوچیں اور صرف سوچیں ہی نہیں بلکہ اُس پر عمل کرنے کی کو شش کریں کہ جن معصوم ہا تھوں میں کتا بیں ، کھلونے ہو نے چاہے تھے اُن ہا تھوں میں اب اب گرم اِینٹیں ، پھول ، اخبار ، ہیتھوڑا ، پلاس اور چائے ہو تی ہے ۔ کیو ں ہے ایسا؟ کیو ں ہم اِن باتو ں کو در گزر کر دیتے ہیں جن کے پا س سے ہم ہر روز گزرتے ہیں ۔ مجھے خود یہ لکھتے ہوئے شرمندگی اور افسوس ہو رہا ہے کہ ہم صرف لکھنے اور بولنے کی حد تک ہی کیوں ؟

آئیں !ہم سب ملکر اپنے ننھے منے مزدوروں کو اُن کا بچپن لو ٹائیں ، اُن کے ہا تھوں کو پیٹرول کی بُو سے نہیں بلکہ علم کی خوشبوسے مہکائیں ۔ اپنے ننھے منے مزدوروں کے ہا تھوں سے پلا س اور ہیتھوڑا لے کر کتابیں اور پینسلیں دیں ۔ تا کہ ہمارا آنے والا کل روشن ہو نہ کہ مزدور ۔

آئیں! سب ملکر مزدور کو اُس کا حق دیں ، اُس سے پیا ر کریں ،اُسے انسان سمجھیں ،اُس سے کا م کم اور اُس کے حق کے مطابق اُجرت دیں ۔ تا کہ ہمارا مزدور بھی خوشحال اور اچھی زندگی بسر کر سکے نہ کے مجبور اور مایوس ہو کر ۔ کیو نکہ اگر مزدور مجبور ہو جا ئے گا تو ہمارا معاشرہ کیسے چلے گا کیونکہ مزدور کسی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہو تے ہیں اِس لیے مزدور کو کبھی مجبور نہ ہو نے دیں ۔آئیں !اِس لیبر ڈے کے موقع پر اپنے ساتھ کام کرنے والوں یعنی مزدور وں کو چھٹی ہی نہیں دیں بلکہ اُن کے ساتھ ملکر کچھ وقت بیتا ئیں اور اُنھیں یہ احساس دلائیں کہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہی ہیں ۔

Istfan Alwan
About the Author: Istfan Alwan Read More Articles by Istfan Alwan: 10 Articles with 7869 views

"JUST REMEMBER ME"
.. View More