ہم لیبر ڈے کیوں منائیں

شکاگو کے پیٹ سے نکلنے والی مزدوروں کی تحریک آج تقریباََ پوری دنیا میں پھیل چکی ہے جس کا مقصد مزدروں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا ہے اس کے لئے پوری دنیا میں انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں تپتی دھوپ ، گرم ہوا کے تھپیڑوں کی پرواہ کئے بغیر ائیر کنڈیشنڈ سے مزین کانفرنس ہالز میں پروگرام کا انعقاد کرتی ہیں جس میں مزدوروں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے لمبے لمبے سکرپٹڈ بیان دیے جاتے ہیں اور آخر میں تیس ڈشوں کی ہائی ٹی کر کے اے سی گاڑیوں میں بیٹھ کر بڑی بڑی کوٹھیوں کی جانب رواں دواں ہو جاتے ہیں پیچھے رہ جاتے ہیں تو بس مزدور جو اس آس پر کانفرنس میں شرکت کرتے ہیں کہ شائد آج ہمارے دن پر ہماری شنوائی ہو جائے شائد آج ہمیں برابری کے حقوق مل جائیں ، شائد آج ہمارے بچے بھوکے نا سوئیں مگر سب اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب کانفرنس میں آئے مہمانوں کے لئے روٹی کھول دی جاتی ہے ۔ میں بھی ایک مزدور ہی ہوں پر شائد باہر والے مزدوروں سے ذرا ہٹ کر ہوں جو کہ اے سی والے کمرے میں بیٹھتا ہے آٹھ گھنٹے میں چھ گھنٹے کام کرتا ہوں چھٹی کر بھی لوں تو ڈیہاڑی کٹنے کا ڈر نہیں ہوتا، بیمار ہو جاؤں تو دوائی کا انتظام کرنے کے لئے بھاگ دوڑ نہیں کرنا پڑتی شائد اس لئے اُن مزدوروں کا درد محسوس نہیں کر سکتا جوسورج کی تپش کو خاطر میں نہیں لاتے اُن کے لئے آندھی طوفان کوئی معنی نہیں رکھتے کیونکہ اُن کو پرواہ ہوتی ہے اپنے کنبے کی کفالت کی وہ کل کا انتظار نہیں کرتے اُن کو آج کی فکر ہوتی ہے کہ کہیں چھٹی کر لی تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا، بچے بیمار ہو گئے تو دوائی کے پیسے کہاں سے آئیں گے بس باہر والے مزدور کے اس احساس کو محسوس کرنے کے لئے گھر سے نکل پڑا مزدوروں کے اڈے پر پہنچا تو مزدوروں کا جم غفیر دیکھ کر تڑپ اٹھا ہر مزدور کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی آئے اور اُسے ڈیہاڑی پر لے جائے تا کہ شام کو گھر جاتے ہوئے وہ بیوی بچوں کے لئے کچھ نا کچھ لے جائے اُن کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آج اُن کا دن منایا جا رہا ہے آج اُن کے حقوق کے لئے کانفرنسز کا انعقاد کیا جا رہا ہے اُن کو بس فکر ہے تو اپنی ڈیہاڑی کی، کچھ لمحے یونہی مزدوروں کو دیکھتا رہا جو ہر آنے والے کے گرد یوں جمع ہو جاتے تھے کہ گویا اگر اُس کے ساتھ ڈیہاڑی پر نا گیا تو قیامت برپا ہو جائے گی یقیناََ اُن کا خوف ٹھیک بھی تھا کہ بندہ اپنا پیٹ تو کاٹ ہی لیتا ہے مگر اُن کا پیٹ کیسے کاٹے جن کے لئے وہ مزدوروں کے اڈے پر ڈیہاڑی کرنے آیا ہے۔

قارئین کرام! ہمارے مزدور بھائی بھی ہماری ہی طرح کے انسان ہیں فرق صرف وقت کی ستم ظریفی کا ہوتا ہے کسی کو کروڑوں میں کھلاتا ہے تو کسی کو کوڑیوں کا محتاج بنا دیتا ہے اس پر ہمارے حکمرانوں کے کھوکھلے دعوے کاری ضرب کا کردار ادا کرتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا، کوئی کہتا ہے کہ اگر مجھے موقع ملا تو میں یوں کر دونگا حالانکہ موقع پہ کئی موقع ہڑپ کر چکے ہیں اسی طرح کسی کا راگ ہے کہ تبدیلی آئی رے ارے دکھاؤ کہاں آئی ہے تبدیلی؟ کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے جس کا حقیقت سے دور تک واسطہ نہیں ہے، کسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ جو انسان آٹے کی بوری کو اپنی پیٹھ پر لاد سکتا ہے وہ اُسے کھا نہیں سکتا اور جو کھا سکتا ہے وہ اُسے اُٹھا نہیں سکتا ۔

ہمیں تو زیب ہی نہیں دیتا کے ہم مزدوروں کا دن منائیں کیونکہ ہم نے اپنے مزدوروں کے لئے آج تک کیا ہی کیا ہے؟ آج تک ہم بجٹ میں بڑھائی گئی تنخواہ پوری مقدار میں مزدوروں کو دے نہیں سکے آج بھی مزدور گیارہ سے تیرہ ہزار ماہوار تنخواہ لینے پر مجبور ہیں جو لوگ ان مزدوروں کا استحصال کر رہے ہیں اُن کو پوچھنے والا کوئی بھی نہیں ہے وزارتِ مزدور اور انسانی وسائل والے مزدوروں کے لئے مسائل بنے ہوئے ہیں ہمارے ہاں صرف اعلانات کئے جاتے ہیں عمل در آمد کروانے سے ہمارے حکمرانوں کو موت پڑتی ہے ہمارے ملک میں ہر پیدا ہونے والا بچہ قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے حالیہ رپورٹ کے مطابق ہر پاکستانی سوا لاکھ روپے کا مقروض ہے جو کہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور دوسری طرف پاکستانی حکمران ہیں جو اربوں روپے ڈکار گئے ہیں اور اربوں روپے سنبھال کر بیٹھے ہوئے ہیں یہ بھول کر کہ موت کے بعد صرف اڑھائی گز قبر درکار ہے اور شائد کسی کو ووہ بھی نصیب نا ہو تو کیوں نا یہ کالے دھن کے اربوں روپے ان مزدوروں میں بانٹ دیے جائیں تا کہ اُن کو اپنی ڈیہاڑی نا لگنے کا ڈر نا ہو وہ بھی فاقہ کشی سے بچ جائیں اُن کے بچے بھی اچھے سکولوں میں اچھی تعلیم حاصل کر سکیں اُس کے ساتھ آج مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل ہے کہ خدارا مزدروں کو اُن کا جائز حق دیا جائے مزدور کی کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کی جائے، مزدوروں کو بھی وہ تمام مراعات مہیا کی جائیں جو ان افسران شاہی کو مہیا کی جاتی ہیں، ہر بڑے تعلیمی اداروں میں مزدوروں کے بچوں کا کوٹہ لگایا جائے جس کے تحت وہ مفت تعلیم حاصل کر سکیں اور اگر یہ سب نا ممکن ہے تو اُن افسران شاہی کی تنخواہ مزدور کی تنخواہ کے برابر کر دی جائے تا کہ اُن کو مزدور کی تلخ زندگی کا احساس ہو سکے اور اگر حکمران یہ سب نہیں کر سکتے تو پھر اُن کو مزدورں کا عالمی دن منانے کا بھی کوئی حق نہیں کیونکہ مزدور تو عالمی دن کے موقع پر بھی مزدوری ہی کر رہا ہے اور حکمران آرام سے چھٹی منا رہے ہیں تو پھر ہم لیبر ڈے کیوں منائیں؟
 

M.Irfan Chaudhary
About the Author: M.Irfan Chaudhary Read More Articles by M.Irfan Chaudhary: 63 Articles with 53390 views I Started write about some serious issues and with the help of your feed back I hope I will raise your voice at the world's platform.. View More