انسانی شخصیت کے کئی پہلو ہیں جن میں انفرادی پہلو اور
معاشرتی پہلو، دو اہم ترین پہلو ہیں ۔ ہماری شخصیت کا انفرادی پہلو معاشرتی
پہلو سے کہیں اہم ہے ۔ یہ پہلو ہماری سوچ اور رویوں پر مشتمل ہے ۔ انسانی
شخصیتکا ذاتی پہلو اس کے مجموعی معاشرتی پہلو کو اثر انداز کرتا ہیں کیونکہ
یہی رویے دوسرے انسانوں کی زندگی میں مثبت یا منفی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں
۔ایک انسان کی سوچ اس کے گرد دیگر افراد کی سوچ اور زندگیوں پر لا محالہ
اثر انداز ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پہ ، والدین کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ
رویہ بچوں کی نفسیات پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے ۔اگر والدین ، آپس میں
ہر ووقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہوں ، قطع نظر اس کے کہ وہ اپنے بچوں کو براہ
راست کچھ نہ کہیں تو بھی بچوں کے ذہنوں میں خوف ،اپنے ماحول سے بغاوت کے
جذبات جنم لیتے ہیں ۔ اسی طرح ایک ملکی سربراہ کے خیالات و افکار سے پوری
عوام بلاواسطہ یا بلواسطہ متاثر ہوتی ہے ۔ اگر کوئی صاحب کردار شخص ملکی
حکومت سنبھالے تو ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کر سکتا ہے ۔ اگر کوئی
بدکردار شخص حکومت سنبھال لے تو عوام بد حالی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ملکی
سطح پر اپنایا جانے والا رویہ عوامی سطح پر بھی رائج ہو جاتا ہے اگر معاشرے
کی بھلائی درکار ہو تو اس کے افراد کی سوچ کو مثبت سمت میں موڑدینا ضروری
ہو جا تا ہے ۔
حضرت علی ؓ کا ارشاد ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اپنے خیالات کو پاک رکھو
، کیونکہ خیالات عادات بن جاتے ہیں اور عادات ، اعمال میں بدل جاتے ہیں ۔
گویا اعمال کو درست کرنے کی پہلی کڑی سوچ ہے۔ اگر سوچ کو مثبت کر لیا جائے
تو انسان میں شکرگزاری کا جذبہ بلند ہوتا ہے ، مایوسی کے بادل آپوں آپ چھٹ
جاتے ہیں ۔ دوسری صورت میں اگر کوئی انسان منفی سوچ کا حامل ہو اور ہر
تصویر کا سیاہ رخ دیکھنے کا عادی ہو تو وہ کبھی بھی کسی منفی صورت حال سے
مثبت نتیجہ اخذ نہیں کر سکتا ۔چونکہ وہ مسائل تو حد سے زیادہ توجہ دیتا ہے
اور ان کے حل پر کم اس لیے اس کے مسائل برقرار رہتے ہیں ۔ بلکہ بعض صورتوں
میں ان مسائل میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔
اس کی مثال کچھ یوں لیجیے آپ سڑک پر چلنے والی گاڑیوں میں سرخ گاڑیوں کو
غور سے دیکھنا شروع کر دیں تو چند منٹ بعد آپ کو محسوس ہو گا کہ سڑک پر
دوڑنے والی گاڑیوں میں سرخ رنگ کی گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا
۔بالکل یہی عالم ہماری روزمرہ زندگی کا بھی ہے ۔ اگر مثبت سوچ کو
اپنایاجائے ۔ مسائل کی بجائے ان کے حل پر توجہ دیں تو منفی حالات شاید ختم
نہ ہوں ۔لیکن ان کی شدت میں کم و بیش ۵۰ فی صد تک کمی واقع ہو سکتی ہے
۔مسلسل منفی سوچ انسان میں مایوسی کو جنم دیتی ہے اور مایوس انسان میں
کامیابی کی طرف قدم اٹھانے کی طاقت کم ہو جاتی ہے ۔ وہ اپنے مسلہ کو حل
کرنے کی بجائے اس کا عادی ہونے لگتا ہے اور مسلسل غم کا شکار رہتا ہے ۔ اسی
مایوسی میں وہ اپنی غلطیوں کو دوسروں کے سر تھوپنے اور دوسروں کو وجہ قرار
دینے کی کوشش کرنے لگتا ہے ۔
دوسروں کو اپنی ناکامیوں کے لیے مورد ِ الزام ٹھہرانا ہی بنیادی وجہ ہے کہ
ہمارے معاشرے میں تعمیری سوچ دن بدن کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے ۔ ہم میں
سے کم و بیش نوے فی صد لوگ معاشرے میں پنپتی برائیوں میں حکومت یا سیاست
دانوں کی کرپشن کوذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔ کسی حد تک یہ درست بھی ہے ۔ کیونکہ
ایک لیڈر یا راہنما کی ذمہ داری ہے کہ وہ پورے ملک کے نظام کو احسن طریقے
سے نبھانے کی کوشش کرئے ۔ملکی اداروں کو عوام کے لیے ایک نعمت بنا دے ۔
ایسی پالیسیاں وضع کرے کہ اقوام ِ عالم میں ملکی عزت ووقارمیں اضافہ ہو سکے
۔عوام کو درست راہ پر چلائے اوران کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔
اور اگر کوئی ان ذمہ داریوں کو نبھانے میں کامیاب نہ رہے تو وہ اس کے لیے
ذمہ دار بھی ہے ۔شومئی قسمت ارضِ پاکستان کو سیاست دان ، حکمران ، تو بہت
ملے لیکن حقیقی معنوں میں کوئی راہنما نہ ملا ۔ جمہوریت ہو یا آمریت ، ہر
دو صورتوں میں پاکستان کو کوئی ایسا راہنما نہیں ملا جو اس ملک کو احسن
طریقے سے چلا سکے اور عوام کی صحیح معنوں میں راہنمائی کر سکے ۔
ہمارے ملک میں دوسروں کو سنوارنے ، ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے میں ہر
ایک پیش پیش ہے لیکن اگر بات اپنی اصلاح کی آئے تو کوئی اپنی اصلاح نہیں
کرنے کو تیار نہیں ہو تا۔ اگر کسی ایک سیاست دان کی کرپشن کو پکڑ کر اسے
عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے تو وہ بجائے اس کے کہ اپنی بدعنوانی
کو قبول کرتے ہوئے عوام سے معافی مانگے ۔ وہ اس بات کا مطالبہ کرنے لگتا ہے
کہ دوسرے کا احتساب کیوں نہ کیا گیا ۔حال ہی میں ملک کے سابقہ وزیر اعظم کو
کرپشن اور بدعنوانی کی سزا کے طور پر نا اہل قرار دیا گیا لیکن انھوں نے نہ
صرف اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا بلکہ پورے ملک میں جلسے جلوسوں میں
مجھے کیوں نکالا کا نعرہ لگاتے نظر آئے ۔ جمہوری عوام کی شخصیت پرستی کا
اندازہ لگائیے کہ حلقہ ۱۲۱میں ن لیگ کی کامیابی ہے ۔ یہ حال حکمرانوں کا
نہیں بلکہ عوام کا بھی ہے ۔
لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے ۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اگر کسی محلے میں
کچرے کے ڈھیر پڑے نظر آئیں تو کچھ ہاتھ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے وہ کچرا
پہلی بار وہاں پھینکا ہوگا۔ا س شہر کے باسیوں میں احساسِ ذمہ داری کا فقدان
بھی سامنے آتا ہے ۔ کسی بھی شہر کی میونسپل کمیٹی اس وقت تک فعال نہیں ہو
سکتی جب تک اس شہر کے عوا م اس کے ساتھ تعاؤن نہ کریں ۔ اس کی اہم ترین
مثال شہر قائد کراچی ہے ۔ یہ شہر گنجان آباد ہے اور رقبہ کے اعتبار سے بھی
کافی بڑا ہے ۔ اس شہر کی صفائی کی آئے روز مہم چلائی جاتی ہے لیکن ہر تیسرے
مہینے شہر بھر میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے نظر آنے لگتے ہیں ۔ گو یا عوام نے
خود ہی صفائی کا خیال نہیں رکھا ۔ یہ غیر ذمہ دارانہ رویہ نچلی سطح سے لے
کر حکمرانوں تک نظر آئے گا ۔
ہم میں سے کوئی اپنی غلطی کو سدھارنے کو نہ صرف تیار نہیں بلکہ اپنی غلطی
کی ذمہ داری بھی دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لوگ دوسروں کو خوشی
خوشی دین کی دعوت دیتے ہیں لیکن خود عمل کرنے کو تیار نہیں ہوتے ۔ ہر مسئلے
کی بنیاد دین سے دوری کو بناتے ہیں لیکن دین کی تعلیمات نماز روزے سے ہٹ کر
کیا ہیں یہ سمجھنے اور جاننے کو تیار نہیں ۔مذہب کو معاشرے میں رائج ہی
نہیں کرنا چاہتے ۔عمل سے عاری ، ہم نے باتوں ، بحث برائے بحث کو شعار بنا
لیا ہے ۔ ہماری اجتماعی زندگی علامہ اقبال کے اس شعر کی غماز ہو چکی ہے ۔
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتا ر کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
وقت کا تقاضا ہے کہ اب ہم عمل کی دنیا میں قدم رکھیں اور یہ ثابت کر دیں کہ
مسلمان بے عمل ہر گز نہیں ہیں ۔
|