سچ بولنے کے جتنے بھی نقصانات جھیلنے پڑیں مگر آخر میں
سکون ہمارا منتظر ہوتا ہے کہ وہ ہمیں ہر شے سے بے نیاز کر دے۔
دولت عورت کے نصیب سے مل سکتی ہے اور اولاد مرد کی بدولت ملتی ہے مگر پھر
ہمارے ہاں عورت کو ہی کیوں آخر گھر سے باہر محض اولاد نہ ہونے کی بنا پر
نکالا جاتا ہے؟؟؟
اولاد نہ ہونے کے اسباب تو کچھ بھی ہو سکتے ہیں، یہ تو رب کی مرضی ہے کہ
کسی کو کسی بھی وجہ سے اولاد نہ دے مگر ہم اس کی ذمہ داری کیوں عورت پر
ڈالتے ہیں؟؟؟
محبت ہر بار ہو سکتی ہے، بار بار محبوب بدل بھی سکتے ہیں مگر ہم کسی کو نہ
تو محبت کرنے سے روک سکتے ہیں نہ خود کو محبوب بنا لینے پر کسی سے لڑسکتے
ہیں،مگر ہم محبت تقسیم ضرور کرسکتے ہیں کہ محبت سے بڑی کر کسی اور کو کیا
خوشی ملے گی؟؟؟
زندگی میں کسی بھی میدان میں کامیابی کے لئے جذبہ اور محنت کے ساتھ حوصلہ
قائم رکھنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔
جو اللہ سے ڈرتے ہیں وہ کبھی کسی کے ساتھ ذیادتی نہیں کرتے ہیں۔
جس نے آپ کی زندگی میں رہنا ہے وہ آپ کے ساتھ جو بھی ہوگا تب تک ساتھ رہے
گاجب تک وہ زندہ ہے،جس نے جانا ہے اس نے بہانے اور مناسب وقت کا انتظار
کرنا ہے کہ کب رخصتی لی جائے،لہذا ابن الوقت افراد کی خاطر خود کو ذہنی
اذیت کا شکار مت بنائیں،زندگی اتنی انمول ہے آپ اسے کسی کی بے حسی کی نظر
مت کریں کہ آپ اپنی خوشیوں کو ہی ترس جائیں۔
جب تک بچوں کی تربیت خود والدین نہیں کریں گے، وہ ان کو کہیں بھی اچھے
ادارے میں تعلیم دلوائیں یا ہوسٹل میں قید رکھ کر اچھا انسان بنانے کی کوشش
کریں پھر بھی کمی رہ ہی جائے گی، ماں باپ کی تربیت کو تعلیمی ادارے اور
ہوسٹل انتظامیہ کبھی پورا نہیں کر سکتی ہے۔
ہمارے ملک میں بچاری عوام روزی روٹی کی فکر ہی میں پڑی ہوئی ہے جبکہ تیونس
اور مصر کی عوام کسی قدر خواب غفلت سے جاگ اٹھی ہیں ۔کیا یہ بات اہم نہیں
ہے کہ ملک کی سربراہت کو اپنی جاگیر سمجھنے والے لیڈران کو نا چاہتے ہوئے
بھی اقتدار اور ملک چھوڑنا پڑا ہے۔ حسنی مبارک صاحب نے اپنے طو ر سے تو بہت
زور لگا یا کہ میٹھی گولی دے کر جیسے ہمارے پاکستان میں لیڈران ووٹ کے حصول
کے لئے جھوٹے وعدہ کر کے اقتدار میں آتے ہیں ویسے ہی وہ اپنے اقتدار کو طول
دے سکیں مگر عوام نے بس ایک ہی مطالبہ رکھا جناب آپ کی رخصتی سے کم کسی بات
پر کوئی سمجھوتہ نہ ہوگا۔
جیسے ہمارے حکمران اپنے مفادات کی خاطر سپر پاور مملکت سے اپنے اقتدار کی
طوالت اور مالی مفاد مانگتے ہیں کہ بدلے میں بیٹیاں اور بیٹوں کی جانوں کا
نذرانہ بمعہ تمام تر شرائط کو مان لیں گے جو بھی آپ پسند کریں ۔لیکن مصری
عوام میں شعور اجاگر ہو چکا تھا لہٰذا وہ ہوا جو بہت کم دیکھنے میں آتا ہے
مصر کی عوام نے تو باقی مسلمان ممالک کے لئے ایک مثال قائم کر دی ہے کہ اگر
سب متحد ہوجائیں تو کسی بھی فرعون سے چھٹکارہ پانا کوئی مشکل کام نہیں ہے
بس بات صبر اور حوصلے سے حالات کا مقابلہ کرنے کی ہے ۔پاکستان میں بسنے
والی عوام کو بھی چاہیے کہ اپنے حقوق کے حصول کی خاطر عملی قدم اُٹھائے
وگرنہ وہ اسی طرح سے اپنی باقی ماندہ زندگی بھی گزار لے گی کہ وقت کب کسی
کےلئے رک پاتاہے۔ویسے بھی خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرنا چاہتے
ہیں اور اگر کسی قوم کو اپنی حالتے بدلنے کا خیال نہیں آئے گا تو انکی حالت
زار کسی طور بہتر نہیں ہو پائے گی تو قانون فطرت ہے ۔
کتنی مثالیں ہمارے سامنے روز آتی ہیں جہاں ہمیں اسلام کی صحیح تصویر دیکھنے
کا موقعہ ملتا ہے مگر پھر بھی ہم اسلام کی تعلیمات پر ٹھیک طرح سے عمل پیرا
ہونے کو شاید اپنی سبکی محسوس کرتے ہیں یا لوگوں کی اس بات سے ڈرتے ہیں کہ
اگر داڑھی رکھی لی تو لوگ کہیں گے کہ یہ تو بڑا مولوی بنا پھرتاہے یا اس
طرح کی دیگر باتیں جو ہم عموما اپنی روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں
وہ ہمارے ساتھ بھی پیش آ سکتی ہیں۔ہم اپنی عملی زندگی میں اس بات سے دور
ہونے کی وجہ سے اسلام کی تعلیمات ہی ہمیں راہ حق کی طرح لے جاسکتی ہے بے
شمار مسائل کا سامنا کرتے ہیں مگر اسی یہ وجہ سمجھنے کی بجائے یہ تصور کرتے
ہیں کہ ہماری قسمت میں ہی ایسا لکھا ہوگا؟
لوگ اپنے حق کے حصول کی خاطر مل جل کر جہد وجہد کریں توپاکستان میں عدل
وانصاف کے خواب کو پورا کیا جاسکتا ہے۔لیکن ایک بات بے انصافی کرنے والوں
کو بھی سوچنی چاہیے کہ انکو بھی اپنے یوم حساب کا د ن دیا درکھنا چاہیے جس
دن ان سے انکے ہر عمل کاجواب دہ ہونا پڑیگا۔
یوں تو ہمارے والدین بھی ہم بچوں کے حق میں دعا کرتے رہتے ہیں اور اکثر ہم
انہی کی وجہ سے بے شمار مسائل سے محفوظ رہتے ہیں مگر ہم میں سے کچھ نا
عاقبت اندیش ان کی موجودگی سے فائدہ نہیں اُٹھاتے ہیں اور جب وہ خود والدین
بنتے ہیں تو اُن میں سے کچھ کو پتا چلتا ہے کہ ماں باپ کی دعااور انکی
موجودگی کیا اہمیت رکھتی ہے؟ اب آپ سے آج التماس کرتا ہوں کہ ایسے افراد کے
حق میں دعا کیجئے گا کہ وہ بھی ہدایت پا سکیں او ر والدین کی بھرپور خدمت
کر سکیں۔دوسری طرف ہمیں دوسروں کے لئے بھی دعا کرنی چاہیے کہ ایسا کرنے سے
ہماری اپنی بے شمار دعائیں بھی دوسروں کی وجہ سے قبول ہو جاتی ہیں۔اس دنیا
سے رخصت ہونے والوں کے لئے بھی بہترین تحفہ دعا ہے اور اچھی اولادہی اکثر
والدین کی بخشش کے لئے دعا کیا کرتی ہے وگرنہ بہت سے لوگوں کو تو اس کی بھی
توفیق نہیں ہوتی ہے ۔ میرے ایک مہربان دوست محمد مظہرفرید )اسسٹنٹ ڈائریکٹر
لینڈ ریکارڈ، لیاقت پور) ہیں، اُن کے بھائی کی حال ہی میں وفات ہوئی ہے
،یہاں انکے لئے،میرے والدظہور احمد بخاری ا ور بالخصوص تمام مسلمانوں کے
لئے جو وفات پا چکے ہیں ،دعا کیجئے گا کہ اﷲ اُنکی منزلیں آسان کریں اور
مغفرت فرمائیں،اور انکے درجات بلند فرمائیں۔(آمین ثم آمین)
جہاںتک مجرموں کو معاف کرنے کی بات ہے تو اسلام نے اس سلسلے میں اجازت دی
ہوئی ہے اور کوئی بھی اس قانون کے تحت کسی کو بھی معاف کرنے کا حق رکھتا ہے
مگر جناب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایسا کرنا اب ضروری ہو گیا تھا تو پہلے
ہی کیوں نہ معاف کر دیا گیا تھا؟ کسی کو معاف کرنا بھی بہت کچھ سوچ سمجھ
کرکرنا چاہیے اگر وہ ایسا رحجان رکھتا ہو کہ وہ بعد میں بھی کچھ ایسا ویسا
کر سکتا ہے تو ایسے شخص کو معاف کرنا جو کہ قتل کے بعد مسکرا کر وکٹری کا
نشان بنا رہا ہو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے فعل پر نادم نہیں ہے اور ایسا
کرنا ایک جنگلی جانور کو جو زخمی ہو گیا ہو پھر سے جنگل میں چھوڑ دینے کے
مترادف ہے جو کہ زخمی ہو کر اور زیادہ درندگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے اور
ایسے بہت سے نوجوانوں کو جو وڈیروں کے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں کو اس
بات کی جانب اکسا سکتا ہے کہ وہ کچھ بھی کر لیں پیسہ دے کر بچ جائیں گے
کوئی مائی کا لعل انکو ان کے کئے کی سزا نہیں دے سکتا ہے۔
غیرت کے نام پر قتل کرنے والے اپنے فعل پر نادم بھی پہلے پہل نہیں بوتے ہیں
مگر بعد ازں وہ ایک روز اپنے گناہ پر پشیمان ہوتے ہیں مگر ایسا کرنے سے قتل
ہونے والے واپس نہٰیں آتے ہیں۔عزت کے نام پر قتل کرنے والے کبھی بھی باغیرت
نہیں بن سکتے ہیں کہ وہ از خود اتنی غیرت نہیں رکھتے ہیں کہ وہ سچائی کو
تسلیم کر سکیں۔تب ہی وہ جرات کرنے اور حق مانگنے والوں کو جان سے مارتے ہیں
جب تک ہم اپنی سوچ کو نہیں بدلیں گے تب تک ایسی کئی قندیل بلوچ جرات کر کے
دوسروں کا اصل چہرہ سامنے لانے اور اپنا حق لینے کی کوشش کرنے اور من پسند
زندگی گذارنے کے جرم میں مرتی رہیں گی۔
شادی ایک ایسا بندھن ہے جس میں تاحیات ساتھ زیادہ تر رہتا ہے اور بعض
وجوہات کی بناء پر یہ تعلق جلد ٹوٹ بھی جاتاہے جس کی ذمہ داری دونوں طرف
عائد ہوتی ہے ۔ہم کسی ایک کو اس سلسلے میں مجرم قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ بعض
اوقات دونوں فریقین سے زیادہ انکے والدین اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں کہ وہ
اپنے بچوں کی نفسیات کو سمجھے بنا کسی ایسے شخص کے ساتھ ناطہ جوڑ دیتے ہیں
جس کو وہ دل سے پسند نہیں کرتے ہیں ۔ انکی پسند دوسری ہوتی ہے اور وہ انکو
اس کی بجائے دوسرے کے ساتھ زندگی بھر نبھانے کا ساتھ پر مجبور کر دیتے ہیں
جس سے وہ دل سے خوش نہیں ہوتاہے اور زندگی کو سمجھوتے پر گذارنا مطع نظر
بنا لیتا ہے ۔ بسااوقات دو فریقین ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کیو جہ سے ایک
دوسرے سے علیحدہ بھی ہو جاتے ہیں اور یہ صورت حال کبھی پسند کی شادی کے بعد
بھی پیش آتی ہے اور کبھی والدین کے غیر مناسب جیون ساتھی کے انتخاب کی
بدولت بھی پیدا ہوتی ہے۔اس میں کچھ حالات وواقعات کو آپ قسمت کی بھی ستم
ظریقی بھی کہہ سکتے ہیں۔
عموماََ ایسا لڑکیوں کے ساتھ ہوتاہے کہ وہ اپنی پسند کے بارے چاہاکر بھی
کچھ بول نہیں سکتی ہیں چاہے وہ محبت بھی ٹوٹ کرکر تی ہوں بہت کم ہی اس بابت
والدین کو آگاہ کرتی ہیں کہ وہ اس خاص شخص کے ساتھ زندگی بسرکرنا چاہ رہی
ہیں۔جو ایسا کرتی ہیں وہ بقول ایک قاری آصفہ نورین کے وہ ’’بے باک ‘‘ اور’’
منہ پھٹ‘‘ کہلاتی ہیں۔ والدین انکی چاہت معلوم ہونے کے باوجود اپنی انا،دھن
دولت کی لالچ میں کسی اور کی شریک حیات بننے پر آمادہ کرتے ہیں جس سے
بالخصوص مشرقی لڑکیاں والدین کی عزت کی خاطر اپنے آپ کو مار کر انکے منتخب
ساتھی سے سمجھوتہ کر کے ساری زندگی گذار دیتی ہے کہ عورت کا اصل گھر ہوتا
ہی کہاں ہے ۔ شادی سے پہلے والدین ،پھر شوہر یا پھر اولاد کا وہ بچاری تو
ساری زندگی اصل گھر کی متمنی ہی رہتی ہے۔مگر وہ اپنے اولین سچے
پیارکرنیوالے محبوب ساتھی کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی ہیں۔ چاہے اس کے
ساتھ کچھ بھی ہو جائے۔لیکن وہ سمجھوتہ کرنے کی جبلت ہونے کی وجہ سے باقی کی
زندگی آسانی سے گذر لیتی ہیں مگرلڑکے ہمیشہ اس کے برعکس ہوتے ہیں کہ
سمجھوتہ کر لینا بہت کم انکی سوچ ہوتی ہے۔ پتانہیں ہم لوگ اپنی اولاد
بالخصوص لڑکیوں کو جینے کا حق کیوں نہیں دیتے ہیں جبکہ ہمارے دین میں اسکی
بھرپوراجازت ہے۔مگر ہم اسلام کو اپنا مذہب قرار دینے والے سچا مسلمان کہنے
والے کبھی بھی دین کی حقیقی تعلیمات پر عمل کرنے کی دل سے کوشش نہیں کرتے
ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے محبت کرنے والے کیوں ایک دوسرے کے زندگی بھر کے ساتھی
نہیں بن سکتے ہیں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ والدین انکا ساتھ دیں وگر نہ انکو
بھاگ کر ایک ہونا پڑتا ہے جو کہ اگرچہ ایک غلط اقدام ہے مگر کوئی صورت نہ
بننے کی وجہ سے اٹھا یا جاتاہے۔ تبھی غیرت کے نام پر قتل کی خبریں بھی
اخبارات کی زنیت بنتی ہیں اب اگر دیکھا جائے تو ایسے لوگ جو غیر ت کے نام
پر اپنی بہن یا اُسکے محبوب کو قتل کرتے ہیں وہ خود کہاں غیرت رکھتے ہیں
اگر ایسا ہوتا تو وہ دین کے احکامات کے مطابق اُنکو جو اسلامی تعلیمات کے
مطابق جائز طور پر ایک دوسرے کیساتھ بندھن میں بندھ جاتے ہیں کو قتل نہ
کریں۔جب والدین بچوں کی پسند کی بجائے اپنے ہی خاندان والوں کو ترجیح دیں
اور شرافت وایمانداری کی بجائے اپنی ضد پوری کرنے کے لئے بچوں کی زندگیوں
کو داؤ پر لگانے کی کوشش کریں تو بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں گھر سے بھاگ کر
کورٹ میرج کرتے ہیں اوردو گھرانوں کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں ۔
حالانکہ ہمارے دین کی اس حوالے سے واضح احکامات ہیں کہ بچوں کی پسند کے بعد
انکی شادیاں کر دی جائیں مگر آجکل کے دور میں باپ کو اپنے بھائی کے ہاں اور
ماں کو اپنی بہن سے بڑھ کر اورکوئی عزیزتر نہیں ہوتا ہے۔اور وہ اپنی من
مانی کرواتے ہیں اوربہت بار ایسا کرنے والوں کا ساتھ کچھ دیر کا ہوتاہے
جیسے والدین کے بنائے ہوئے رشتے بھی کبھی کھبارٹوٹ جاتے ہیں۔ مگر بہت سے
جوڑوں کی ازوداجی زندگی کامیاب بھی رہتی ہے اگر وہ بہت سوچ سمجھ کر زندگی
بھر کے ساتھ کیلئے جیون ساتھی منتخب کیا جائے تو زندگی جنت بن جاتی
ہے۔والدین نے بچوں کی شادیاں کہیں نہ کہیں تو کرنی ہوتی ہیں تو انکی پسند
کو مدنظر کیوں نہیں دیکھا جاتاہے ۔بچوں کے بدلتے اطوار سے انکے بارے میں
کچھ جاننا مشکل نہیں ہوتا ہے مگر بعض اوقا ت خاندان میں شادی کرنا، پیسہ
،شرافت اورمحبت وغریبی پر غالب آجاتاہے ۔یہاں خصوصاََ مائیں اپنی بیٹیوں کی
پسند کو بآسانی جان سکتی ہیں کہ وہ اکثر ماؤں کے زیادہ قریب ہوتی ہیں اور
وہ اُنکے دلی پسند کے مطابق جیو ن ساتھی کا انتخاب کر سکتی ہیں۔
اگر آپ نے کچھ دیکھ کر کچھ سمجھا لیا ہے تو پھر آپ یہ یاد رکھئے گا کہ اکثر
جو ہم دیکھتے ہیں ویسا حقیقت میں نہیں بھی ہوا کرتا ہے لہذا کچھ کے کچھ کو
دیکھنے کے لئے بھی تیاررہیں۔
زندگی میں سب کچھ آپ کے پاس آجائے تو پھر اس زندگی سے بہترین انداز میں لطف
اندوز نہیں ہوا جا سکتا ہے، آپ بہت کچھ کھو کر بھی بہترین خوشی حاصل کر
سکتے ہیں۔
یہ مت دیکھیں کہ کوئی آپ کو کیا کچھ دے سکتا ہے یا دے گا، یہ سوچیں کہ آپ
کتنی خوشیاں کسی کے دامن میں ڈال سکتے ہیں۔دوسروں سے امید رکھنا ہی مایوسی
کی جانب لے جاتا ہے اور پھر آپ بہت سے ذہنی امراض کا بھی شکار ہوتے ہیں
لہذا جتنا جو بھی پاس ہو وہ عطا کرنا سیکھیں۔
گرگٹ رنگ بدلتا ہے، سانپ ڈستا ہے وہاں انسان جہاں حیوان بن کر وحشیت کا
مظاہرہ کرتا ہے وہیں وہ محبت میں خود کو بھی فنا کرلیتا ہے اورفرشتہ صفت
بھی بن جاتا ہے۔
ہم نے محبت کو دل لگی کا کھیل سمجھ رکھا ہے آخرکب تک ہم محبت کے نام پر
دوسروں کو برباد کرتے رہیں گے اور کب تک عشق کے نام پر دوسروں کی عزت خراب
کرتے رہیں گے، کیا زخمی دل کی پکار اللہ تعالی تک نہیں جائے گی تو پھر ہم
کیوں جان بوجھ کر کسی کے دل کو توڑتے ہیں؟؟ کب تک دکھی دلوں کی کہانیاں
پڑھنے والوں کو رلائیں گی؟؟؟
کبھی کبھی جائز کام کرنے کے لئے بھی خطرات مول لینے پڑتے ہیں جب تک ایسا نہ
کیا جائے وہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتے۔
ایک زمانہ تھا جب لڑکے اور لڑکی کی آنکھیں چار ہوتی تھیں اور پیار ہو جاتا
تھا، یہ منظر کسی ریل گاڑی کے سفر یا بس پر دیکھنے کو ملتا تھا مگر وقت
گذرنے کے بعد آج کوئی یہ بات کرتا ہے توخوب ہنسی آتی ہے کہ بھئی جب موبائل
فون سے نظریں اُٹھیں گی تو پیار ہوگا، اس کم بخت ایجاد نے ان مناظر کو قصہ
پارینہ بنا دیا ہے۔
چہرے دھوکے دیتے ہیں مگر عمل سب ظاہر کرتے ہیں کہ کوئی کیا نیت رکھتا ہے۔
گوشہ تنہائی اکثر لوگوں کو نفس کو قابو رکھنے میں بھی مدد دیتی ہے
کچھ اتنے غریب لوگ بھی پاکستان میں رہتے ہیں جو کہ ہر عید پر نئے جوتوں کے
لئے مسجد کا رخ کرلیتے ہیں۔
آج ایک بات سمجھ میں آئی ہے کہ جب انسان دھوکا کھا لیتا ہے تو پھر زندگی
بھر اسی خدشے میں زندگی بسر کرنے لگتا ہے کہ پھر کہیں اور سے دھوکا نہ مل
جائے اوریہی خدشات اس کو مزید دھوکے بازی کا شکار کر دیتا ہے۔
کسی بھی انسان کو سدھارنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اُسے محبت سے قابو
کرلیں۔پھر اُس کی بہتری کی کوشش کریں تاکہ وہ بھی کامیاب اور خوش رہ سکے۔
پاگل پن کا دوسرا نام محبت ہے۔وہ محبت ہی کیا جس میں جنون نہ ہو۔
کسی بھی فرد کو دوسروں کے سامنے ذلیل کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ
اپنی عزت بھی نیلام ہو جائے گی؟؟؟
ہم اپنی نالائقی سے رشتوں میں دراڑ پیدا کرتے ہیں اور بعد میں کہتے ہیں کہ
ایسا کیوں ہو گیا ہے؟ جب کہ ہم خود ہی دوسروں کے احساسات کو مجروح انجانے
میں کرجاتے ہیں۔
ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ہم برائی کی طرف مائل ہونے والے
عوامل کا جب تک خاتمہ نہیں کریں گے، لوگ بے راہ روی کا شکار ہوتے رہیں گے
اور کئی قندیل بلوچ منظر عام پر آتی رہیں گی۔ہمیں عورت کو بھی مرد کے برابر
حقوق دینے ہونگے ورنہ قندیل بلوچ جیسی لڑکیاں جرات پہ قتل ہونگی کہ ہم لوگ
عورت کو شاید پاوں کی جوتی سمجھنے لگے ہیں۔ اس میں ہمارا معاشرہ قصوروار ہے
اور ذرائع ابلاغ بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کررہا ہے جس کی وجہ سے بے راہ
روی عام ہو رہی ہے اور لوگوں کو گمراہی کی طرف بھی چند افراد لے کر جا رہے
ہیں تب ہی ہم لوگ یہ جانے بنا کہ اسلام میں قانون کو اپنے ہاتھ لے کر کسی
کو سزا دینے کا حق ہم نہیں رکھتے ہیں۔ہم میں اس قدر حوصلہ نہیں رہا ہے کہ
برداشت کرسکیں اور یہی عدم برداشت ہی ہمیں قتل جیسے گھناونے فعل پر مجبور
کرتا ہے۔
کچھ انسان آپ کی زندگی میں تبدیلی لے آتے ہیں، کچھ آپ کو سبق پڑھاتے ہیں کہ
آپ زندگی کو بہترین انداز میں جی سکیں، لہذا کسی کو بُرا کہنے سے گریز
کریں۔
کچھ انسان آپ کی زندگی میں تبدیلی لے آتے ہیں، کچھ آپ کو سبق پڑھاتے ہیں کہ
آپ زندگی کو بہترین انداز میں جی سکیں، لہذا کسی کو بُرا کہنے سے گریز
کریں۔
شریک حیات کو ہرطرح سے خوش رکھنا آسان عمل نہیں ہوتا ہے مگررویے سے اتنا
ضرور محسوس کرانا چاہیے کہ آپ جو بھی کر رہے ہیں، بہتر کر رہے ہیں۔جو بھی
بس میں ہو، وہ آپ کو عطا کرنا چاہیے، مگر اعتدال کے دامن کو ہاتھ میں
رکھیں۔
جہیز کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے کئی لڑکیاں گھر بیٹھی رہتی ہیں، دوسری
طرف ولیمے اور نکاح کے کھانوں پر بلاوجہ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے، کھانا ضائع
ہو جاتا ہے، کاش ہم سب حد میں رہ کر دولت کی نمائش کریں اور ان کی مدد کرنے
کی کوشش کریں جن سے کوئی محض جہیز نہ ملنے کی بنا پر نکاح نہیں کرتے....
کسی کے بارے میں دعوی کرنا کہ وہ فلاں کی کوکھ سے دنیا میں نہیں آیا ہے، یہ
بدترین عمل ہے جس کو کسی طور پر معاف نہیں کیا جا سکتا ہے،کوئی شخص زندہ ہو
یا دنیا سے رخصت ہو جائے، ایسے عمل کے خلاف علم بغاوت ضرور بلند کرنا چاہیے
تاکہ اُس کہنے والے شخص کی آئندہ نسلوں میں بھی ایسا دعوی کرنے کی جرات نہ
ہو کہ وہ تذلیل کر سکے۔
بار بار ناکامی آپ کو یہ بات یاد دلواتی ہے کہ آپ کہیں نہ کہیں کوئی کمی
چھوڑ رہے ہیں۔
حق کے لئے کھل کر لڑنا چاہیے، کل کو اللہ کو ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ
اپنے مفادات عزیز تھے تو چپ رہے۔
جن کے دلوں میں چور ہو، وہ چیخ سے بھی گھبرا اُٹھتے ہیں، کمزوروں کو اپنی
آواز ضرور نکانی چاہیے۔یہی بڑی تبدیلی رونما کرسکتی ہے۔
عورت کی خاموشی کو رضا مندی سمجھ لی جاتی ہے مگر اس کے گرنے والے آنسو کسی
کو دکھائی نہیں دیتے ہیں،آخر کب تک حوا کی بیٹیوں کو اپنی انا اورخاندان کے
نام پر قربان کیا جائےگا؟
ایک وقت تھا جب سعادت حسین منٹو معاشرے میں ہونے والی نا انصافیوں، زندگی
کے تلخ پہلو اوربرائیوں پر لکھ کر مقدمات کا سامنا کرتا تھا کہ انتی کڑوی
سچائی کیوں بیان کر دی ہے، مگر یہاں سیاست کرنے والوں کی عقل کا ماتم کرنا
پڑتا ہے کہ وہ عوام کا رجحان ایک خاص جماعت کی طرف جاتا دیکھ کرمحض مفادات
کی خاطر خواتین کے ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹانے اورسیاسی سرگرمیوں پر حصہ
لینے پر عامیانہ رائے کا اظہار کرتے ہیں کیا ایسے افراد مزید حکمرانی کے
اہل ہیں، اس پر ضرور سوچیں، جو خواتین کا احترام نہیں کر سکتا اس پراپنا
ووٹ ضائع کرنا بدترین عمل ہے۔
محبت انسان کو حساس کر دیتی ہے۔
ہمارے ہاں اپنے مفادات کی خاطر اصولوں کو بدل تو لیا جاتا ہے مگر اصول پر
قائم رہتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ |