مرزا صاحبہ کی داستان ایک مشہور لوک داستانوں میں سے ایک
داستان ہے. مگر میں اس کو عشق کی داستان سے زیادہ ایک بے وفا عورت کی کہانی
کہنا پسند کرتی ہوں. میرے نزدیک مرزا جٹ کا عشق کامل اور صاحبہ کا عشق ایک
مکر کے علاوہ کچه نہیں تھا. اپنی نظم "پارس" میں اس حقیقت کی نشاندہی میں
نے کچه اس طرح سے کی ہے.
اور جو کہتے ہیں کہ عشق تو صاحبہ کو بهی تھا ..
وه کیا جانے کہ عشق تو صولی پر جھولتا ہے ابھی تک
مرزا جٹ اور صاحبہ رشتے دار تهے.بچپن میں ساته کھیلتے کب محبت کا شکار ہوئے
پتا ہی نہیں چلا. ایک روز مدرسے میں مرزا کے ہاتھوں پر چھڑی پڑی اور اس کا
نشان صاحبہ کے ہاتھوں پر پڑا. سارے زمانے میں ان کے عشق کا فسانہ مشہور
ہوگیا. مرزا کی ماں نے اپنے بیٹے کو واپس بلوا لیا. صاحبہ کا حسن ایسا فسوں
گر تها کہ راه چلتے لوگ راستہ بهول جاتے. موچیوں کی عورتیں بڑے چاه سے
صاحبہ کے لیے زرتار جوتے تیار کرتیں. جولاہوں کا ایک لڑکا صاحبہ پر عاشق
تها اور اس نے صاحبہ کے لئے پہلی بار سوتی اور ریشمی دهاگے سے اوڑھنی اس کے
لئے بنی اور جب صاحبہ کو پیش کی تو صاحبہ کی عنایات کچه عرصے اس پر بهی
رہیں. یہ سچ ہے یا جهوٹ، وللہ عالم بالصواب. ہوسکتا ہے مقامی داستان گو
حضرات نے داستان کو رنگین بنانے کے لیے اس بات کا سہارا لیا ہو.
بہرحال صاحبہ کی شادی اس کے بهائیوں اور باپ نے طے کردی. صاحبہ نے مرزا کو
پیغام بھیجا کہ
آو آکر مجھے حنا لگاو.
مرزا کو جب یہ پیغام ملا تو اس کے گھر اس کی بہن کی شادی کی تقریب چل رہی
تھی. وه عشق کا مارا تقریب چھوڑ کر منزلیں مارتا صاحبہ کو لینے اپنی گهوڑی
پر پہنچ گیا.صاحبہ نے گھر سے نکلتے نکلتے دیر لگائی. مرزا نے گهوڑی دوڑائی
تو صاحبہ کبھی روتی کبھی اسے آہستہ ہونے کو کہتی. اس کشمکش میں پو پهٹ گئی.
مرزا تهکن سے چور ستانے کے لیے ایک درخت کے سائے میں لیٹا. اس کی بدقسمتی
سے آنکھ لگ گئی. ادھر صاحبہ کے بهائی منزلیں مارتے سر پر پہنچ گئے. بجائے
مرزا کو جگانے کے بجائے صاحبہ نے اس کے سارے تیر توڑ دئے کیونکہ مرزا غضب
کا تیر انداز تها اور صاحبہ اپنے بهائیوں کو اس کے ہاتھ مرتا نہیں دیکھ
سکتی تھی. مرزا پر اس کے بهائی ٹوٹ پڑے اور اس کو انہوں نے موت کے گھاٹ
اُتار دیا. مرتے وقت بهی اس عاشق صادق کے لبوں پر صاحبہ کا ہی نام تها
.صاحبہ کی موت کے بارے میں مختلف روایات میں مختلف حوالہ جات ہیں کچه کے
مطابق صاحبہ نے تلوار سے اپنی جان لے لی. کچه کے مطابق اس کی جان اس کے
بهائیوں نے لے لی.
پیلو ایک لوک شاعر نے اس قصے کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے.اس کے الفاظ
سیدھے دل میں اترتے ہیں؛
ص
مندا کیتوئی صاحبا، میرا ترکش ٹنگی او جنڈ سر توں منڈاسا اڈ گیا، گل وچ
پیندی چنڈ باجھ بھراواں جٹ ماریا، کوئی نہ مرزے دے سنگ جٹا ای او۔۔ ا و ۔
۔۔ او۔۔۔۔ ا و ۔ ۔۔ او۔۔۔۔
ترجمہ : (اے) صاحباں!! یہ تو نے اچھا نہیں کیا کہ میرا ترکش درخت پہ لٹکا
دیا (مرزا کے) سر سے پگڑی اتر گئی اور چہرے پہ دھول پڑ گئی جاٹ کو بغیر
بھائیوں کے مارا اور مرزا بالکل اکیلا تھا
پیلو کے علاوہ، مرزا صاحباں کی کہانی مولا شاہ مجیٹھوی نے بھی بیان کی ہے۔
آر سی ٹمپل نے بار کے کئی بھاٹوں سے اس کہانی کو سنا اور اسے ہمیشہ ہمیشہ
کے لئے کتابوں میں محفوظ کر لیا۔
اس واقعے کو بیتے کئی سو سال ہو چکے ہیں لیکن آج بھی محبت کا یہ قصہ زندہ
ہے اور اسے لوک داستان کا درجہ حاصل ہے۔اہلِ علاقہ ان دونوں محبت کرنے
والوں کی یاد میں تقریباً دو سو سال سے ہر برس اٹھائیس اور انتیس مارچ کو
مرزا اور صاحباں کی قبر کے بالکل سامنے میلہ سجاتے آ رہے ہیں۔
مرزا صاحباں کی قبر کے علاوہ داناباد میں ایک اور روائت بھی ہے۔ صاحباں کے
بعد سیالوں کی ہر نسل میں ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے جو بھری جوانی میں محبت
کرتی ہے اور پھر مر جاتی ہے۔ آگے اللہ بہتر جانتا ہے.
|