بوڑھے ہو گئے ہیں۔ کوئی کام دھندہ کرتے نہیں‘ ہوتا بھی
نہیں ۔ سچی یہ بھی ہے کہ اب کرنے کی طرف طبعیت جاتی بھی نہیں۔ چارپائی پر
لیٹ جاؤ اور وقفے وقفے سے‘ اصلی نقلی ہائے ہائے کے نعرے لگاؤ تو جان آسانی
سے نکلنے کی دعائیں شروع ہو جاتی ہیں۔ ہائے ہائے میں پھرتی آنے کی صورت میں
سورتہ یسین کی تلاوت شروع کر دیتے ہیں کہ جیسے ابھی پھر ہوا۔ اگر بلا ہائے
ہائے گھر دن گزارو تو ماضی کے نکمےپن کے گلے شکوے شروع ہو جاتے ہیں۔ کہا
جانے لگتا ہے ہٹا کٹا ہے‘ اسے ہڈ ××× کا مرض لاحق ہو گیا ہے۔ اس صورت حال
سے نجات کے لیے ہم عمر سنگی گاؤں کے باہر پیپل کے پیڑ کے نیچے چارپائیاں
بچھا لیے ہیں۔ سردیوں میں دھوپ میں بیٹھ کر ماضی کے قصے دہراتے ہیں۔ مرچ
مصالحہ تو خیر لگانا ہی پڑتا ہے ورنہ بات توجہ نہیں پکڑتی۔ ہاں رائی کا
پہاڑ نہیں بناتے۔ کبھی سیاست موضوع بن جاتی ہے۔ مہنگائی بھی زیر گفتگو آتی
رہتی ہے۔ کبھی لطیفےبازی کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح دن اچھا‘ پرلطف
اور مصروف گزر جاتا ہے۔
اس روز لطیفوں کا دور چل رہا تھا۔ سارا دن ہنسی خوشی اور چھڑا چھاڑی میں
گزرا۔ دن بھر ہنستے مسکراتے اور قہقہے لگاتے رہے۔ مسکانوں کے پھول جھولی
میں ڈالے‘ لبوں پر دبی ہنسی اور آنکھوں میں رومانی کیفیت اور جوانی کی سی
چمک دمک لیے‘ میں اپنی زوجہ ماجدہ کے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ رستے میں
نیکاں جو ادھ کھڑ‘ واجبی سا بوتھا اور کپا جسم رکھتی تھی۔ اسے اچھی بری نظر
دیکھنے کی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘ مل گئی۔ میں نے لطیفوں کی شرارت کی
آغوش میں رہتے ہوئے‘ اس کی طرف دیکھا۔ وہ یوں پھٹ پڑی‘ جیسے میں نے اسے
گولی مار دی ہو۔ اس سے پہلے ہزار بار مل چکی تھی لیکن خاموشی سی گزر جاتی
تھی۔ عورتیں جمع ہو گئیں اور مجھے طنزیہ اور حیرتیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔
لوگوں نے عمر کا لحاظ کیا ورنہ چھتر تو پڑ گئے تھے۔ بابا ٹھرکی کے خطاب سے
بھی سرفراز کیا۔ گھر پہنچنے سے پہلے میری رومان پروری کے قصے مع لگی لیپٹی
گھر کی دہلیز پار کر گئے۔ بڑے اونچے درجے کا خیرمقدم ہوا۔ اس سے تو اچھا
تھا کہ چھتر ہی پڑ جاتے۔
اس واقعے سے ایک اچھا ضرور ہوا‘ جب بھی گلی سے گزرتا‘ چنچل شوخ اور مٹک مٹک
کر چلتی بیبیاں‘ مجھے دیکھ کر‘ کبھی دبے اور کبھی کھل کھلا کر‘ ہنس پڑتیں۔
اب کیا تھا‘ گھر دوزخ میں جلتا‘ باہر حوروں پریوں کی مسکراہٹوں کے غول میں‘
زندگی کے کرخت مجبور اور بیمار لمحے گزارنے لگا۔ کبھی کسی کی آنکھوں کی
شوخی شک میں ڈال دیتی لیکن میں اپنے آپے میں رہتا۔ میں تو اپنے والی کے
قابل نہ رہا تھا‘ کسی بی بی کی لذاتی حس کو کیا تسکین دے پاتا۔ سوچتا کاش
یہ سب جوانی میں ہو جاتا۔ نام تو خیر بڑھاپے میں بھی پیدا کر لیا تھا۔ ہر
چھوٹا بڑا‘ منہ پر مجھے بابا ٹھرکی کہتا اور ساتھ میں باآواز بلند قہقہے
بھی داغتا۔ دوستوں میں نام پیدا ہو گیا۔ مجھے دیکھتے تو کہتے‘ اوہ لاڑا آ
گیا جے۔ ہاں ان کے چہرے کی بےبس لاچار اور خوف ناک جھریاں‘ ان کے بڑھاپے کی
بےچارگی اور اولاد کی لاپرواہی کی چغلی ضرور کھا رہی ہوتیں۔ |