دنیا کے تمام مذاہب میں پیار و محبت، ہمدردی و ایثار ،
میل و جول اور باہمی یکجانگت و الفت کا دریں اور تصور موجود ہے۔ دنیا میں
کوئی بھی ایسا مذہب نہیں پایا جاتا جو خدمت خلق اور آپس کے میل و جول کی
تعلیم نہ دیتا ہو۔ انسانیت کی خدمت کرنا اور اس کے دکھ سکھ میں کام آنا ہر
مذہب کاطرح امتیاز ہے۔
ـدرد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں ـ
انسان کی تخلیق کا مقصد ہی ایک انسان کے دل میں دوسرے انسان کے لئے محبت
اور خدمت کے جذبات پیدا کرنا ہے اگر اس کے دل میں جذبہ محبت، خدمت اور جذبہ
ایثار و قربانی نہ ہو تو پھر انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ دنیا
میں اﷲ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو یکساں بناکر نہیں بھیجا بلکہ اس نے کسی
کو چھوٹا اور کسی کو بڑا ، کسی کو امیر اور کسی کو غریب بنا دیا تا کہ وہ
ان کا امتحان لے اور دیکھے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
دنیا کے تمام انسان چاہے وہ اﷲ پر ایمان رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں ایک
دوسرے سے ہمدردے کرنے اور اس کے غم میں شریک ہونے کے قائل ہیں ۔ جس معاشرے
میں اخلاق حسنہ نہ ہوں وہ فسادات کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ ایک دوسرے پر سے
اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ اور قتل و غارت کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔لیکن افسوس
یہی حالت آج ہمیں نظر آ رہی ہے اپنے ارد گرد کی خبروں سے اور دیکھنے کے بعد
۔ امن اور جنگ بہ ظاہر صرف دو الفاظ ہیں لیکن یہ دونوں الفاظ اپنے اندر
گہرے معنویت رکھتے ہیں ۔ امن راحت سی راحت ہے اور جنگ سراسر زحمت ہی زحمت۔
دنیا کا ہر ذی شعور انسان امن سے محبت اور جنگ سے نفرت کرتا ہے۔ جو شخص اور
ملک امن و امان غارت کرنے کا سبب بنتا ہے وہ اﷲ اور اس کے بندوں کے نزدیک
قابل نفرت اور انسانیت کا دشمن ہے۔
بھارت پاکستان کا قریبی ہمسایہ ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے
قریبی ہمسائیوں سے بہتر تعلقات کی خواہاں رہی ہے لیکن بد قسمتی سے بھارت نے
پاکستان کی نیک نیتی کو ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھا۔ بھارت نے کبھی بھی
پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا اس وجہ سے ان دونوں ملکوں کے
درمیان تین لڑائیاں ہو چکی ہیں اور اب مسئلہ کشمیر سلگتا مسئلہ بن چکا ہے۔
کشمیر میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ اور بھارت کے افواج کے
ہاتھوں تقریبا ۸۰ ہزار سے زائد بے گناہ کشمیری مسلمان شہید ہو چکے ہیں۔
زخمی معذور اور اپاہج کتنے ہوئے ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ بھارت کی ان
مذموم کاروائیوں کا مقصد کشمیری حرریت پسندوں کی تحریک حصول حق خوداریت کو
بزور کچلنا ہے۔ اور پاکستان کو نیچا دکھانا ہے۔یہی نہیں فلسطین میں صدیوں
سے تینوں ادیان سمایہ یعنی اسلام،عسائیت اور یہودیت کے پیروکار مکمل امن و
آشتی کی فضا میں رہ رہے تھے۔ یہ مقدس سر زمین تینوں مذاہب کے لیے بے حداہم
ہیں۔ پاکستان میں فلسطینی مسئلہ کو اکثر یہودیت اور اسلام کے مابین تنازعہ
سمجھتے ہیں۔ اور یہ بات کسی حد تک صحیح بھی ہے۔ کیونکہ ہمارے قبلہ اول پر
قبضہ ہی سارے قصے کا مرکزی باب ہے لیکن میرے نزدیک یہ مسئلہ غاصب جمہوریت
اور انسانیت کے درمیان جنگ ہے۔
جہاں میں قوم کا کردار دیکھا جاتا ہے
وطن کی آبرو ہوتی ہے اُس کے لوگوں سے
اسلام ایک اعلیٰ معاشرتی نظام کے داغ بیل ڈالتا ہے۔ جس میں حقوق و فرائض کی
نشاندہی کر دی گئی ہے۔ اسلامی مملکت کے مابین اتحاد کو فروغ دینا اور انہیں
ایک مرکز پر جمع کرنا بھی ہمارا قومی مقصد ہے۔ معاشرے میں امن کی فضا کے
حصول کیلئے حکومت اور عوام کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذمے داریاں پورے خلوص اور
دیانتداری سے انجام دیں محنت، جفاکشی، جدوجہد اور وفاداری کو اپنا شعار
بنائیں اور تمام صوبوں میں قومی اتحاد کے فروغ کیلئے بھر پور جدوجہد کریں ۔
ـ
|