گفتگو کی حدود وقیود

رب کریم نے انسان کی فطرت ہی کچھ یوں بنائی ہے کہ اس میں ہر چیز کی حد کا خاص خیال رکھا ہے کوئی بھی اعضااپنی حدود سے باہر نہیں چاہے آپ انسان کے خدوخال کا جائزہ لیں یا انسان کی بتلائی ہوئی اخلاق حسنہ کوپرکھیں ،ان تمام چیزوں میں آ پ کو وہ چیز نمایاں اور اچھی محسوس ہوگی جو اپنے حد میں ہوگی،چہ جائے کہ انسان کی گفتگو ہو یااس کا حلیہ ۔انسان کی پہچان ہمیشہ اس کی گفتگو اور اخلاق سے ہوتی ہے ۔انسان اس وقت تک عزت کی چادر میں لپٹا رہتا ہے جب تک وہ خاموش رہتا ہے جب انسان اپنی گفتگو کرتا ہے تب اس کی قدر وقیمت کا اندازہ ہونے لگتاہے،اچھی گفتگو اچھے اخلاق کے مترادف ہوتی ہے اس لئے انسان جو بھی گفتگو کرے اپنی شخصیت اور حیثیت کے مطابق کرے۔ہمیشہ کامیاب شخص وہی کہلاتا ہے جو اپنے حدود میں رہتا ہے اور وہ شخص ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے جو اپنی حد سے تجاوز کر جاتا ہے۔

گفتگو انسان کی پہچان کی وہ واحد سیڑھی ہوا کرتی ہے جس کے چڑھنے سے ہی انسان کی وسعت ظرف اور اخلاق کی مسافت معلوم ہو جاتی ہے کہ وسعت کا دامن کتنا وسیع ہے اور اخلاق و آداب کا گھونٹ پیا بھی ہے یا علم کے سمندر میں صرف غوطہ زن ہوکر عملی میدان میں نکل پڑا ہے۔آج کے سیا سی ماحول کی طرف اگر نظر دوڑائی جائے تو اکثر سیاستدانوں کی زوال پذیریاں اسی گفتگو کے آداب کو ملحوظ خاطر نہ رکھنے کی وجہ سے ہوئی ہیں ،زبان درازیاں ،مغلظات سے کسی کی عزت نفس کو مجروح کرنا،یہ سیاست دانوں کا شیوہ بن چکا ہے حالانکہ یہ تو ہمارے لیڈر،رہنما اور پیشوا ہوا کرتے ہیں۔اگر ان کی گفتگو اخلاق سے گری ہوئی ہوگی یا کسی کیلئے بغض و عناد کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوگا تو بتائیے کہ وہ عوام کی کیا اصلاح کرسکیں گے۔

یاد رکھیں زبان کی دھار تلوار سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے زبان جو زخم دیتی ہے وہ بہت گہرا ہوتا ہے اس لئے اپنے گفتگو میں اعتدال پسندی کا رویہ اپنائیں اور ایسی گفتگو سے پرہیز کریں جو بعد میں ہمارے لئے پشیمانی کا باعث بنے۔ہمارے اگر ضلعی سطح کی سیاستدانوں پر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو انسان شسدرہ رہ جاتاہے کہ ہمارے لیڈر بھی ایسے اخلاق سے عاری گفتگو کرسکتے ہیں،سیاسی گٹھ جوڑ کا اونٹ تاحال کسی کروٹ بیٹھنے کے انتظار میں ہے مگر اس سے قبل کچھ سیاستدان اور ان کے سپورٹرز حضرات ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے اخلاق سے کوسوں دور گفتگو کو اپنا اخلاق حسنہ سمجھ رہے ہیں۔

سیاست اپنی جگہ مگر انسان کو اپنے اخلاق کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہمیشہ بات تمیز سے اور گفتگو اخلاق سے کرنی چاہئے کیونکہ سیاست ہماری پہچان نہیں بلکہ اخلاق حسنہ اچھی گفتگو ہی ہماری پہچان اورہمارے کردارکا پتہ دیتی ہے،سوشل میڈیا پر اخلاق سے عاری گفتگو سے اودھم مچانے کے بجائے اخلاق اور شائستگی کی رسی کو مظبوطی سے تھامے رکھیں کیونکہ ہر چیز اپنی حد میں اچھی لگتی ہے اگر آپ اپنی گفتگو میں شائستگی اپنائیں گے تو یقینا اس کا ثمرہ بھی بھلائی کی صورت میں ملتا ہے۔کیونکہ سب کچھ آپ کی گفتگو اور اخلاق حسنہ پرہی تو منحصر ہے۔

خدارا ایسی گفتگو اور ایسے بازاری زبان استعمال کرنے سے گریز کریں جس سے عوام میں پھوٹ کا اندیشہ ہو،عوام اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے۔بہرکیف ایسی گفتگو سے پرہیز کریں جو حد اور حیثیت سے تجاوز ہو،اور ایسی گفتگو کریں جو حدود کے دائرے میں ہو۔اﷲ تعالیٰ ہمیں بامہذب شخص بنائے اور ایک نیک سیرت باخلاق لیڈر عطافرمائے جو ہماری دینی دنیاوی اصلاح فرمائے۔اﷲ تعالیٰ ہم سب کو باسلیقہ اور اخلاق کومدنظر رکھتے ہوئے گفتگو کرنے کی توفیق عطافرمائے،آمین۔

Muddasir Qaisrani
About the Author: Muddasir Qaisrani Read More Articles by Muddasir Qaisrani: 5 Articles with 3274 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.