بھارتیہ ریل اور حادثات

بھارتیہ ریل میں آج کل بہت سے کام ہو رہے ہیں مثال کے طور پربغیر انسان (Unmaned crossing) ریلوے کراسنگ پر بیرئیر لگانے کے کام سے لیکر سپر فاسٹ ٹرینوں کی تعداد میں اضافہ کرنا۔بغیر پھاٹک والی کراسنگ پر اکثر حادثات ہوتے رہتے ہیں،جن میں جانی و مالی نقصان کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ریلوے کی کمائی کے نئے نئے طریقے کھوجے جاتے رہے ہیں،قانون بھی خوب سے خوب تربنائے گئے ہیں۔ریلوے کی آمدنی خوب بڑھائی گئی ہے دو روپئے کا پلیٹ فارم ٹکٹ دس روپئے کا کر دیا گیا جب کہ ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن کے بیچ کی کم سے کم دوری کا کرایہ محض پانچ روپئے ہے۔ریلوے کی آمدنی بڑھانے کے ساتھ ساتھ ریلوے حادثات کم کرنے پر بھی غور فکر کی جانی چاہئے۔

لیکن کچھ لمحے بڑے پُر فکر ہوتے ہیں۔ ۲۶؍اپریل ۲۰۱۸؁ء کوموضع دُدھیں میں بغیر انسانی کراسنگ پر ٹرین نمبر5507صبح ساڑھے سات بجے اسکول کی وین سے ٹکرا گئی اور ۱۳؍معصوم بچوں کی موت ہو گئی۔ان نو نہالوں کی اموات سے ان کے گھر والوں پر کیا گزری ہوگی ،ان کے غم کا اندازہ نہیں کیا جا سکتاان کے غم کو تصور کرنے پرآنکھوں سے آنسو اور منہ سے ہچکی اور سسکی ہی نکلتی ہے۔اﷲ رب العزت ان کے والدین کو صبر عطا کرے اور مرحوم بچے ان کی مغفرت کا ذریعہ بنیں۔

یہ حادثہ سخت ترین دلوں کو بھی پگھلا گیا۔ماؤں نے کتنے محبت کے ساتھ بچوں کواسکول کے لیے تیار کیا ہوگا،کتنے پیار سے ان کی پسند کی چیزوں کا ٹفن بنایا ہوگا۔کوئی ماں کہہ رہی ہوگی ’اچھا بیٹا! ایک نوالہ میرے ہاتھ سے کھالو‘۔کوئی ماں ڈریس پہناتے وقت پیار سے ڈانٹ رہی ہوگی ’’دن بھرمیں کتنے گندے کپڑے کر لاتے ہو؟‘‘یہ اسکول والوں نے بھی پتہ نہیں کیا سوچ کر سفید ڈریس تجویز کر رکھی ہے؟‘‘۔کوئی بچہ سوال کر رہا ہوگا کہ اماں! مجھے پانچ روپے دو ’کرکرے‘ لونگا، ماں نے اپنے لخت جگر کو تکیہ کے نیچے سے نکال کرپانچ روپئے دیے ہوں گے۔کسی بچے نے ماں سے اپنے والد کی شکایت کی ہوگی کہ ’ابّا!میرا نیا بیگ نہیں لاکر دیتے ہیں۔ کسی بچے کی بوااپنے بھتیجے کو دہی شکر کھلانے کے لیے کٹوری لیے دروازے پر کھڑہوگی۔کسی بچے کے دادا بھی پوتے کو پہنچانے باہرآئے ہوں گے اور بچے کو بیٹھتا دیکھا ہوگا اور خدا حافظ کہتے ہوئے ہاتھ ہلایا ہوگا اور دور تک وین کو جاتے ہوئے دیکھتے رہے ہوں گے جس کے پیچھے سچ نہ ہونے والا جھوٹ لکھا تھا ’پھر ملیں گے‘۔آج ۲۸؍اپریل کو اپنے تین بچے کھونے والی ماں اپنے بچوں کی جدائی برداشت نہیں کر سکی اور ان کا مزید انتظار کرنے کی ہمت نہ جٹا پائی تو وہ ان سے ملنے خود چلی گئی۔اس گھر کا کیا حال ہوگا جہاں چار چار موتیں ہو جائیں۔ریلوے کراسنگ پر ابھی بھی تیرہ بستے بچوں کے کندھوں پر لٹکنے کے انتظار میں پڑے ہوئے ہیں۔

یہ سیاستداں احساسات سے عاری، پتھر دِل ہوتے ہیں۔ حادثہ والے دن وزیر اعلی یوگی مہراج جائے حادثہ پرپہنچتے ہیں۔وہاں لوگوں کا ہجوم تھا جو نعرے لگا رہے تھے،یوگی کو دیکھ کر نعرے اور بڑھ گئے۔یوگی جی نے خود مائک سنبھالا اورحالات کو قابو میں کرنے لیے بولتے ہیں’ یہ دُکھد گھٹنا ہے! نعرے بازی اور نوٹنکی بند کرو‘۔ غمزدہ لوگوں کے ہجوم کے غم کے اظہار کو ’نوٹنکی‘ سے تشبیہ دیتے ہیں ۔ یوگی جی تو پڑھے لکھے ہیں بھلے ان کے اولاد نہیں ہے لیکن عوام سے بات کرنے کاسلیقہ تو ہونا ہی چاہئے۔

سبھی ۱۳؍بچوں کا پوسٹ مارٹم ہوا اور بعد میں لاشوں کو ان کے وارثوں کو سونپ دیا گیا ۔دو بچوں کی لاشیں روک لی گئی تھیں کیونکہ ان کے والد بھارت کے باہر تھے۔حیدرعلی میاں کے آنے پر پالیتھین میں سیلڈلاشیں انھیں دی گئیں۔ حید رعلی میاں نے اپنے بچوں کا چہرا دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو ایسا کرنے سے روکا گیا لیکن اس کی ضد پرجب لاش کھولی گئی تو پتہ چلا کہ پوسٹ مارٹم کے بعدلاش ویسے ہی کھلی پڑی تھی اس میں ٹانکے نہیں لگائے گئے تھے۔

گاڑی چلاتے وقت موبائل سے باتیں کرنا بہت خراب بات ہے اور اسی لیے اس کو جرم کے خانے میں رکھا گیا ہے۔موٹر ویہکل ایکٹ کی دفع 184کے تحت چھ ماہ تک جیل اور ایک ہزار روپئے کا جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔اسکول وین کا ڈرائیور جو ابھی زندہ ہے، وہ بھی کانوں میں اسپیکر لگائے تھا۔قانون تو بنا دیے جاتے ہیں ان کا نفاذموقع محل دیکھ کر کیا جاتا ۔ڈرائیور اگر زندہ بچ جاتا ہے تو اس پر ساری دفعات لگانے کے لیے پوری روشنائی اُلٹ دی جائے گی۔اس حادثہ کا ذمہ دار بھی کسی کو بنانا ہے۔لہذا سب سے پتلی گردن اسکول کی پرنسپل کی ملی۔اس حادثہ کا ذمہ دار ان کو ہی ٹھرایا گیااور ان کے خلاف ہی FIRلکھائی گئی۔جس طرح سے بچوں کی جان بچانے والے ڈاکٹر کفیل کو عوام مسیحا بولتی رہی لیکن بچوں کی موت کا ذمہ دار ان کو ہی بنایا گیا۔اور ہمارے وزیر اعلی مہودئے یہی کہتے رہے’اگست کے مہینہ میں بچے مرتے ہی زیادہ ہیں‘۔

بغیر آدمی کے ریلوے پھاٹک بڑے ہی خطر ناک ہوتے ہیں، پچھلے تین سالوں میں تقریباً پانچ سو موتیں ہو چکی ہیں۔بھارت میں50,000ریلوے کراسنگ ہیں جن میں 15,000بغیر چوکیدار کے ہیں۔یہاں احتیات بالکل نہیں کی جاتی ہے یہاں تک اگر لال سگنل ہے تب بھی لوگ لائن پار کرجاتے ہیں جو حادثات کی وجہ ہوتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق ریل حادثات زیادہ تربرسات کے موسم میں پلوں پر ہوتے ہیں اس کی وجہ ہوتی ہیں بے قاعدہ اور غیر منظم پلوں اور ٹریک کا معائنہ۔ان پلوں کی بھی حالت پرانی ہونے کی وجہ سے بہت خراب ہو چکی ہیں جو تیز رفتار گاڑیوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔ ’راجدھانی ‘ اور ’شتابدی‘گاڑیاں تیز رفتار گاڑیاں ہیں جن کی رفتار 160کلومیٹرفی گھنٹہ ہے لیکن ان کی رفتار کی مناسبت سے پٹریوں کا معیار اچھا نہیں ہے۔ان گاڑیوں کے لیے لکڑی کی سلیپروں پر بچھائی گئی پٹریاں ٹھیک نہیں ہوتی ہیں جنہیں تبدیل کر کے ٹریک ’دباؤ مزاحم‘(pressure-resistant)ہونے چاہئے۔

بھارت میں بڑے پیمانے پر ہونے والے ٹرین حادثات2010سے 2016تک مرنے والوں کی تعداد 622ہے اور زخمیوں کی تعداد 698 سے زیادہ ہے۔کشی نگر کے بغیر بیریئر کے کراسنگ کا یہ پہلا حادثہ نہیں ہے ، اس طرح کی کراسنگ بہت سے حادثات کی وجہ بنتی ہیں۔دلّی کے رہنے والے ہر پال سنگ کے ایک آر․ٹی․آئی․ کے جواب میں یہ بتایا گیا کہ دسمبر 2011-12 میں یعنی محض ایک سال میں 131ٹرین حادثے بغیر بیریئر کی کراسنگ پر ہوئے ہیں۔

بھارت میں ریل کا سب سے پہلا منصوبہ مدراس میں ۱۸۳۲؁ء میں تیار ہوا تھا۔اور پہلی پسنجر ٹرین ۱۶؍اپریل ۱۸۵۳؁ء کویعنی محض ۲۱؍سال میں ’بوری بندر‘ اور ’تھانے‘ کے بیچ چلا دی گئی تھی۔جبکہ اُس وقت اتنے ذرائع نہیں تھے اور اب جب کہ آسانیاں اور آمدنی بڑھتی جاتی ہے توریلوے کی جو بنیادی ضروریات ہیں ان میں سدھار لایا جا سکتا ہے؟ گاڑیوں مین جنرل ڈبّوں کا برا حال ہے۔ملک کی زیادہ تر آبادی جنرل ڈبّوں میں ہی سفر کرنے والی ہے لیکن انکے ڈبّوں میں پانی نہیں، روشنی نہیں، ہوا نہیں اور بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں اس کے باوجود لوگ سفر کرتے ہیں۔کیا بُلیٹ ٹرین کے تھوپے جانے سے پہلے جنرل ڈبّوں کی تعداد میں اضافہ کرنے پر ضرور غور نہیں کرنا چاہئے؟

’راجدھانی ‘ اور ’شتابدی‘گاڑیاں تیز رفتار گاڑیاں ہیں جن کی رفتار 160کلومیٹرفی گھنٹہ ہے لیکن ان کی رفتار کی مناسبت سے پٹریوں کا معیار اچھا نہیں ہے جب کہ ۳۲۰؍کلومیٹر فی گھنٹہ چلنے والی ’بلیٹ ٹرین‘ کا اور ان پٹریوں کا کیا حال ہوگا؟ جہاں پیسنجر گاڑیاں آمنے سامنے سے ،آگے پیچھے سے ٹکراتی رہتی ہیں۔

Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 67047 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.