ایک وقت تھا کہ پاکستان میں موبائیل ایک آدھ بندے کے پاس
ہوتا تھا کیونکہ موبائیل فون مہنگے ہوتے تھے ان کی قیمت پچاس ہزار ہوتی تھی
اور یہ سائیز میں بھی بڑے ہوتے تھے لیکن پاکستان میں موبائیل انڈسٹری نے
ببہت جلد ترقی کی ہے اب یہ منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جو بھی اس انڈسٹریز
سے منسلق ہے وہ بھر پور منافع کما رہا ہے چاہے وہ موبائیل کمپنیاں ہوں ،موبائیل
کی شاپس ہوں موبائیل ریپیئرنگ کا کام کرنے والے ہوں یا پھر ان کا تعلق
موبائیل اسسریز سے ہو سبھی خوشحال زندگی گذار رہے ہیں کیونکہ کمپنیاں انہیں
اچھا خاصا منافع دیتی ہیں جو پاکستان میں کسی دوسرے کام کی نسبت زیادہ ہے
پاکستان میں اس وقت چودہ کروڑ سے زائد افراد موبائیل فون کا استعمال کررہے
ہیں اور آنے والے وقتوں میں ان میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا اس وقت
پاکستان میں موبائیل انڈسٹری سب سے زیادہ مظبوط مانی جاتی ہے ہر سال
موبائیل کمپنیاں اربوں روپے کا ٹیکس ادا کرتی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے
کہ کمپنیاں اور حکومت مل کر سو روپے کے کارڈ پر چالیس روپے ٹیکس وصول کر
لیتی ہیں جو صارف پر سراسر ظلم ہے کیونکہ سو روپے کا کارڈ عام غریب اور
کمزور طبقہ استعمال کرتا ہے اس پر کم سے کم کٹوتی ہونی چاہیئے اس سے پہلے
بھی اس پر بات ہوتی رہی ہے لیکن عنل درآمد صفر ہوتا رہا لیکن اب چیف جسٹس
نے اس کا از خود نوٹس لے لیا ہے ہم امید کرتے ہیں کہ اس کا کوئی جلد حل
نکال لیا جائے گا تا کہ غریب عوام کو سکھ کا سانس مل سکے اب اگر ایک شخص
ایک لاکھ آمدن رکھتا ہے تو اس پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں لیکن اگر ایک غریب
آدمی سو روپے کا کارڈ ری چارج کرتا ہے تو چالیس روپے ٹیکس ادا کرتا ہے اس
سے بڑا ظلم اور ناانصافی کیا ہو سکتی ہے گورنمنٹ کا فرض ہے کہ عوام کو
ریلیف فراہم کرے نہ کہ فضول کے ٹیکس لگا کر مال بنائے اگر تو یہ پیسہ خزانے
میں جاتا ہے اور اس کا صحیح استعملا بھی ہو رہا ہے پھر تو خوش آئیند بات ہے
لیکن اگر اس کا استعمال غلط ہو رہا ہے تو پھر اس کا مکمل حساب ہونا ضروری
ہے چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کہ اس مسئلے کا حل فوری ہونا چاہیئے تا کہ
عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو سکے اور پہلے سے مہنگائی کا ستائی عوام کو
ریلیف مل سکے یہ سارے کام حکومت کے کرنے کے ہوتے ہیں لیکن اب ہر معاملے میں
عدلیہ کو عمل دخل کرنا پڑتا ہے اس کا مطلب ہے کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے
ہمارے اداروں کو اتنا مظبوط ضرور ہونا چاہیئے تا کہ ملک میں ہونے والی
کرپشن کو روکا جا سکے یقین مانیں اگر ہماری عدلیہ انصاف پر مبنی فیصلے دے
تو پھر پاکستان کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا انشا اﷲ وہ دن دور نہیں
جب ہر شخص کو اس کے دروازے پر انصاف مہیا ہو گا اسے انصاف کے لئے در بدر کی
ٹھوکریں نہیں کھانی پڑیں گی اگر ملک میں انصاف کا بول بالا ہو تو پھر کسی
کو جرات نہیں ہے کہ وہ ڈاکہ زنی کر سکے یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لے سکے
لیکن افسوس کہ ابھی ایسا کچھ نہیں ہے ابھی قانون بھی بک جاتا ہے اسے مزید
درست سمت میں لانے کی ضرورت ہے تا کہ عام آدمی بھی اس دنیا میں جی سکے اگر
ملک ترقی کرتا ہے تو اس کا براہ راست اثر عوام پر پڑنا چاہیئے عوام کا لائف
اسٹائیل بہتر ہونا چاہیئے ہر چیز شہری کی پہنچ میں ہونی چاہیئے یہ سب اسی
وقت ممکن ہو گا جب عام شہری کو سامنے رکھ کر بجٹ تیار کئے جائیں گے جب
حکومتیں عام آدی کے بھلے کے لئے سوچنا شروع کریں گی جب عام آدمی کی تنخواہ
میں بھی اضافہ ایک ایم پی اے،ایم این اے اور وزراء کے مطابق اضافہ کیا جائے
گا کیونکہ ایک عام آدمی بھی ملک کی ترقی میں اپنا ہاتھ بٹاتا ہے لیکن اس کا
معاوضہ اتنا کم رکھا گیا ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی اپنے بچوں کو نہیں دے
سکتا کیونکہ ہر جگہ اس کا استحصال کیا جاتا ہے لیکن اب عوام کو بھی باشعور
ہونا ہو گا کافی حد تک عوام کو شعور آ چکا ہے لیکن ابھی بھی بد قسمتی سے
بہت سے لوگ ان پڑھ ہیں ہمیں لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے لئے اپنی اپنی
جگہ سوشل میڈیا پر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے موبائیل کارڈ کی کٹوتی
پر بھی جو نوٹس لیا گیا ہے یہ سوشل میڈیا کا ہی مرہون منت ہے اس طرح کے
مسائل آپس میں ضرور ڈسکس ہونے چاہیں تا کہ ان کا کوئی حل بھی ممکن ہو اگر
ہم سب مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں آگے بڑھنے
سے نہیں روک سکتی ترقی اور خوشحالی ہمارا مقدر ہوگی انشااﷲ
|