وہ جونہی لیب میں داخل ہوئے تو ماحول یک دم بدل گیا۔
چائینز عموما بور طبیعت کے ہوتے اوربہت کم ہنستے بولتے ہیں لیکن پروفیسر
Yang کی بات ہی کچھ ا ور تھی، وہ زندگی سے بھر پور انسان تھے انکی موجودگی
سے ڈیپارٹمنٹ میں زندگی کی خوشبوپھیل جاتی۔ عمر پینتیس سے چالیس کے درمیان
تھی اسطرح ڈیپارٹمنٹ کے کم عمر ترین پروفیسر کہلاتے تھے۔ قابلیت، ذہانت اور
خوش مزاجی کا ایسا جادو تھا کہ ہر ایک سٹوڈنٹ اور پروفیسر انکے سحر میں
کھینچا چلا آتا ۔پھرتی کا یہ عالم تھا کہ اتنے کم عرصے میں دس سے زائد پی
ایچ ڈیز فارغ کیے اور ساتھ ہی ان گنت دوسرے ریسرچ پراجیکٹس بھی چلا رہے تھے
لیکن مجال ہے کہ ماتھے پر کام کی زیادتی یا سٹوڈنٹس کی لاپرواہی سے کوئی
شکن آئی ہو۔ اکثر تو لنچ اوقات میں آفس ہی میں میوزک آن کر کے کلچرل ڈانس
شروع کر دیتے۔ ہر سٹوڈنٹ انکی نگرانی میں کام کرنا چاہتا تھا۔ زبان کی
بندشوں کی وجہ سے ہمارا ان سے زیادہ تعلق تو نہیں تھا لیکن انکی ذہانت،
تجربے اور ریسرچ میں مہارت کی وجہ سے اکثر و بیشتر ضرورت پڑتی رہتی تھی۔اس
دن بھی وہ اپنی روش برقرار رکھتے ہوئے لنچ ٹائم میں چائینز سانگز کا
دورانیہ چلاتے رہے اور دیر تک ہم سب ہنستے مسکراتے کام ختم کر کے واپس
آگئیاور پھر کچھ ہی دیر بعد اطلاع ملی کہ دل کا دورہ پڑنے سے پروفیسر Yang
کی اچانک مو ت واقع ہو گئی ، یہ ساری تفصیل بتانے کا مقصد یہ ہے کہ میری
طرح آپ بھی اندازہ کر سکیں کہ ایسے شاندار انسان کی اچانک موت سے لیب کی
فضا کتنی مغموم ہوگئی ہو گی۔ نجانے انکے گھر والوں اور سٹوڈنٹس کا کیا حال
ہوگا۔ کیا خبر کہ لیب والے انکے گھر شام سے پہنچ گئے ہونگے یا پھر صبح
جائیں گے اور اگر جائینگے تو کیا رسومات ہونگی۔ یہ سب سوچتے سوچتے صبح ہو
گئی اور آنکھیں نیچھے کیے لیب داخل ہوئی کہ کسی کو دکھ میں نہ دیکھ سکوں
لیکن کانوں میں ہنسی کی آواز پڑی تو میں نے حیرانی سے ادھر ادھر دیکھا کہ
لیب کچا کچ بھری ہوئی ہے اور سب لوگ اپنے اپنے کام میں مصروف ہنستے مسکراتے
جا رہے ہیں۔ پروفیسر کا کارنر خالی ہے لیکن کسی کو پرواہ نہیں وہاں بھی
کاپیاں بکھری پڑی ہیں۔انکے گھر جانا تو دور کی بات کوئی انکا نام بھی نہیں
لے رہا۔ ایک گھنٹہ گزر گیا لیکن کسی نے پروفیسر کے متعلق کوئی بات ہی نہیں
کی ۔ اس امید پر کہ شاید موت والی خبر جھوٹ ہو میں نے انکے ہی سٹوڈنٹس سے
پوچھا تو معلوم ہوا کہ موت تو ہوئی ہے لیکن مردوں کے بارے میں بات کر کے
کیا ٹائم ضائع کرنا۔ ہم مردوں اور قبروں کی بات نہیں کرتے۔ انکے وہ قریبی
دوست جو ہمیشہ انکے ساتھ رہتے تھے وہ بھی ہنستے ہوئے اپنا کام کیے جا رہے
تھے۔ خیر ہم نے پاکستا نی ہونے کا حق ضرور ادا کیا ۔ انکا کئی بار ذکر کیا
، انکی موت کے غم میں آبدیدہ ہوئے اور انکی روح کی تسکین کیلیئے دعا بھی
کی۔لیکن یقین کریں مجھے انکی موت سے زیادہ افسوس اس ترقی پسند معاشرے کی
مردہ دلی پر ہوا۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو آپکی زندگی کے ایک ایک لمحے کو کیش
کرتے ہیں ، آپکے خون اور پسینے سے ترقی کا گارا تیار کرتے ہیں ، اور ذہانت
کی پالش سے معاشرے کو رنگین بناتے ہیں لیکن جونہی آپکی آنکھ بند ہوئی یہ
آپکو کچرا سمجھ کے بھٹی میں ڈال دیتے ہیں اور پھر آپکی راکھ کو مٹی میں دبا
کر ہمیشہ کیلئئے بھول جاتے ہیں۔ یہاں ہر شخص محض اسلیئے زندہ رہتا ہے تا کہ
اپنے احساس کا جنازہ اٹھا سکے اور اگر کوئی اٹھانے کے قابل نہ رہے تو اسے
وہیں گاڑھ کر آگے بڑ ھ جاتے ہیں۔ یہ عجیب سرکس ہے یہاں اگر آپ قابل ، چاکس
اور صحت مند ہیں تو یہ آپکو سر آنکھوں پر بٹھائیں گے لیکن ذرا سی نالائقی
کاہلی اور کمزوری ہو گئی تو کاٹ کہ پھینک دیں گے۔ کیا فائدہ اتنی محنت اور
خلوص کا جب ذرا سی کمزوری پر آپکے دوست احباب تک آپکو چھوڑ جائیں۔ لیکن
ہماری طرف توحال مختلف ہے ہمارے ہاں اگر
مر جائے تو بڑھ جاتی ہے انسان کی قیمت
زندہ ہو تو جینے کی سزا دیتی ہے دنیا
جی ہاں! جینے کی سزا تو کسی نہ کسی شکل میں ہر جگہ ہی ملتی ہے پھر چاہے وہ
پاکستانی معاشرہ ہو یا کوئی اور لیکن اگر مر جائے تو ہمارا معاشرہ اسکی قدر
بڑھا دیتا ہے۔ اگر یہی کچھ خدانخواستہ پاکستان میں ہوا ہوتا تو ہم سالوں تک
یاد کرتے رہتے ۔ یہ سچ ہے کہ وقت ہر زخم بھر دیتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے
کہ آج بھی اپنے پیاروں کو یاد کر کے ہماری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ ۔ ہم
انتہاتی جذباتی اور دردمند لوگ ہیں ہم میت والے گھر تین دن تک آگ نہیں
جلاتے۔ہم لاکھ مصروف ہوں لیکن جنازے کو کندھا دینے ضرور پہنچتے ہیں۔ ہم
دشمن کی موت پہ بھی کھل کے آنسو بہاتے ہیں۔ زندگی میں جنکی شکل دیکھنا بھی
گواراہ نہیں کرتے اگر خدانخواستہ وہ مر جائے تو میت پر سب سے پہلے حاضر
ہوتے ہیں۔ ہماری طرف تو موت ہونے ہر برسوں کی دشمنیاں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔
تین دن کا سوگ تو کوئی بات نہیں اور جمعرات ، چالیسووں کا کیاذکر ہم تو جب
تک زندہ رہیں اپنے مردوں کی برسیاں مناتے ہیں ۔ ہر نازک موقعے پر انکی
قبروں کو پھولوں سے سجا کر انہیں اپنی محبت کا یقین دلاتے ہیں۔ ہمیں قبروں
سے ڈر نہیں لگتا بلکہ ہم تو وہاں سکون تلاشنے اور اپنے پیاروں سے ملنے جاتے
ہیں۔ لوگ ہمیں پاگل اور جذباتی سمجھتے ہونگے، ہماری رسموں پر ہنستے ہونگے
لیکن یقین کریں یہی ہماری خوبصورتی ہے۔ یہی احساس ہماری پہچان ہے یہی وہ
بنیادی وجہ ہے جو بے شمار خامیوں کے باوجود ہمارے معاشرے کو زندہ رکھے ہوئے
ہے۔ اور جن معاشروں کا احساس زندہ ہوتا ہے انہیں کوئی طاقت مار نہیں سکتی۔
ہمارا مذہب اور معاشرہ ہمارا آخری اور مستند حوالہ ہے اور یہی ہماری ترقی
اور خوشحالی ہے۔ خداوند کریم ہمارے ملک اور معاشرے پر اپنا رحم جار ی و
ساری رکھے اور ہمیں انسان کی قدر و قیمت سمجھنے کی اور زیادہ توفیق دے۔
آمین |