اسلام ایک مکمل دین ہے. جس کی بنیاد محبت پر رکھی گئی ہے.
آدم اور حوا کی تخلیق بھی محبت کی بنا پر ہی کی گئی. اور پھر دونوں کو
تخلیق کا کام سونپا گیا، ازل سے ہی مرد اور عورت کے درمیان محبت کا تعلق
بہت نازک رہا ہے اور اللہ تعالٰی نے اس رشتے کو شادی کی صورت میں مضبوط بنا
دیا ہے لیکن افسوس وقت کے ساتھ ساتھ اس رشتے میں دراڑیں آنا شروع ہو گئیں
اور اب یہ تعلق واجبی سا ہوکر رہ گیا ہے، اس کی بڑی وجہ مرد کی بے لگام
خواہشات ہیں، مرد جب پہلی بیوی سے اکتا جاتا ہے تو وہ نئ ڈھونڈتا ہے. جس سے
میاں بیوی کے رشتے میں دراڑیں پیدا ہوجاتی ہیں.اجکل فیس بک پر دوسری شادی
کے حوالے سے پوسٹ مسلسل گردش میں ہے. جس میں کچھ مرد اور خواتین دوسری شادی
پر زور دے رہے ہیں. کہ دوسری شادی مرد کو کرنی چاہیے.. بالکل کرنی چاہیے.
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی شادیاں کی ہیں.
لیکن سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے معاشرے کا مرد اپنی بیویوں میں عدل کر پاتا
ہے؟؟؟؟
کیا وہ کسی بیوہ سے دوسری شادی کرتا ہے؟؟؟
کیا وہ کسی طلاق یافتہ سے دوسری شادی کرتا ہے؟؟؟
کیا وہ ایسی بیوہ اور طلاق یافتہ عورت سے دوسری شادی کرتا ہے جس کے بچے
ہوں؟؟؟
کیا وہ اپنے سے بڑی عورت سے دوسری شادی کرتا ہے؟؟؟؟
ہمارے بنی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ
کے علاوہ باقی تمام ایسی عورتوں سے شادی کی جو عمر میں بڑی تھیں. طلاق
یافتہ تھیں. بیوہ تھیں. یا غلام یا لونڈی تھیں
تو پاکستان میں کتنے مرد ہیں جو ہمارے بنی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ کار کی
اس سنت پر عمل کرتے ہیں؟؟؟؟
ہمارے ہاں مرد ہمیشہ دوسری شادی کسی کم عمر، خوبصورت لڑکی سے کرتا ہے اور
ہر مرد ایسا ہی چاہتا ہے. پہلی بیوی کی حیثیت صفر ہو جاتی ہے
اگر پہلی بیوی کو امید ہو کہ اسکا شوہر اس کے تمام حقوق دے گا تو وہ کبھی
بھی دوسری شادی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے،
لیکن معذرت کے ساتھ کچھ دین کی تعلیمات سے ناآشنا مرد دوسری شادی کے حق میں
دلائل دے رہے ہیں. لیکن ہمارے نبی کریم صلی علیہ والہ و سلم کا طرز زندگی
آج کے مرد سے یکسر مختلف تھا، اگر آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے شادیاں
کی تھیں تو اس میں کوئی مصلحت تھی. عرب معاشرے میں بیوہ یا طلاق یافتہ عورت
سے شادی کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن اسلام کے آتے ہی عورت کو اس کا
جائز مقام ملا. اسے بھی انسان سمجھا جانے لگا. بیوہ اور طلاق یافتہ کو مرضی
سے زندگی گزارنے کا حق دیا گیا. اسے دوسری شادی کرنے کا حق دیا. بیوہ کے
ساتھ شادی کرنا اسلام نے نیکی قرار دیا، یہی وجہ ہے کہ ہمارے پیارے نبی
کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ہر قسم کی عورت سے شادی کی. جن میں بڑی
عمر کی، بیوہ، طلاق یافتہ. غلام،لونڈی وغیرہ شامل ہیں. تاکہ دنیا کو یہ
بتایا جا سکے کے عورت ہر روپ میں قابل احترام ہے. آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و
سلم نے اپنی تمام بیویوں کے درمیان مکمل عدل رکھا. اور ان کے تمام جائز
حقوق دیے، اس کی سب سے بڑی مثال کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی
پہلی اور محبوب بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں دوسری شادی نہیں
کہ. ان کے انتقال کے بعد باقی تمام شادیاں کیں. لیکن آجکل حالات یکسر مختلف
ہیں. آج کا مرد چار شادیوں کی بھی بات کرتا ہے اور اس نے کئی عورتوں سے بیک
وقت تعلقات بھی رکھے ہوتے ہیں اور پھر وہ اپنی پہلی بیوی سے توقع کرتا ہے
کہ اسے دوسری شادی کی اجازت بھی دے. ہمارے ہاں پہلی بیوی ٹشو پیپر کی طرح
ہوتی ہے، جیسے ہی دوسری آئی اسے ایک کونے پر لگا دیا. اس کی حیثیت کسی
ملازمہ کی سی ہو جاتی ہے. کیا ہمارے معاشرے کے مرد اپنی بیویوں میں انصاف
کر سکتے ہیں کیا ہمارے معاشرے کے مرد بنی پاک صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی
سنت پر عمل کرتے ہوئے کسی بیوہ، طلاق یافتہ اور بچوں والی بیوہ اور طلاق
یافتہ سے شادی کرسکتے ہیں؟؟؟؟ جسکا جواب نفی میں ہے. پھر کیسی شریعت اور
کیسا دین؟؟؟
کیونکہ سنت تو یہی کہتی ہے کہ ہر وہ کام کیا جائے جس پر بنی پاک صل اللہ
علیہ و آلہ و سلم نے عمل کیا. ایک حدیث شریف میں آیا ہے. "حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا. اگر کسی
شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان عدل اور انصاف نہ کرتا ہو تو
قیامت کے دن اس کے جسم کا آدھا حصہ مفلوج ہوگا. اگر اولاد کی وجہ سے بھی
دوسری شادی کرنی ہے تو پہلی بیوی کو اس کے تمام جائز حقوق ادا کریں تاکہ
قیامت کے دن آپ سرخرو ہو سکیں. آیے ہم بھی اپنے معاشرے میں اسلام کی صحیح
روح اجاگر کریں تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو - |