کالم کی بنیاد :::( "مغرب کے کہنے پر مساجد اور مدارس میں
سرمایہ لگایا اور دنیا بھر میں وہاب ازم پھیلانے کے لئے فنڈز فراہم کئے"
شہزادہ محمد بن سلمان )
ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سویت یونین اور ان کے متعلق اتحادیوں کے
درمیان 1940-1990ء کی دہائی میں جاری رہنے والے تنازع، تناؤ اور مقابلے کو
سرد جنگ کہا جاتا ہے جس میں براہ راست عسکری مداخلت نہ تھی یہ عسکری تیاری
اور دنیا بھر میں اپنی حمایت کے حصول کے لیے لڑی جانے والی سیاسی جنگ کی
نصف صدی تھی
اس مکمل عرصے میں یہ دونوں عظیم قوتیں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ایک دوسرے
کے حریف رہیں جس میں عسکری اتحاد، نظریات، نفسیات، عسکری قوت، جاسوسی،
صنعت، روایتی و جوہری ہتھیاروں کی دوڑ اور کئی دیگر شعبہ جات شامل ہیں
چند دہائیوں میں یہ جنگ پورے قطعے میں پھیل گئی امریکہ نے اشتراکی نظریات
کو روکنے کے لیے مختلف ممالک سے اتحاد قائم کیے اسی دوران روس مشرقی یورپ
میں اپنی قوت کھوتا رہا اور 1991ء میں ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا
سویت یونین کے خاتمے سے پہلے، دنیا میں دو بڑی قوتیں تھیں. دنیا کو مجبور
کیا جا رہا تھا کہ ان دونوں قوتوں میں سے کسی ایک کو قبول کر لیں. امریکہ
سرمایہ داری اور سوویت یونین اشتراکیت کے نمائندے تھے ہمارے مراعات یافتہ
طبقے کا ایک بڑا حصہ سرمایہ دارانہ نظام کا قائل تھا جو برطانیہ نے
ہندوستان میں متعارف کروایا تھا پاکستان بننے کے بعد ملک کی باگ ڈور اسی
طبقے کے ہاتھ آئی
جب اشتراکیت پسندوں نے اپنی سوچ کے فروغ کے لئے ایک مہم کا آغاز کیا تو
تعلیمی اداروں کو اپنی سرگرمیوں کا نشانہ بنایا اور اس
کی مزاحمت اسلام پسندوں نے کی یوں کچھ مذہبی جماعتیں امریکہ سے مل گئیں جس
میں ہَرْاَوَّلْ دستہ تحریک جماعت اسلامی تھی(اس کی تحریک کی بنیاد مولانا
مودودی نے 1941ء میں رکھی)
امریکہ نے ان تحریکوں کی بھر پور مالی امداد کی اور انہیں امریکہ اور اس کے
اتحادیوں (جس میں سعودی حکومت بھی شامل تھی) سے فنڈز ملتے رہے آج بھی انہیں
فنڈنگ دی جا رہی ہے اور کئی سعودی ادارے اس میں شامل ہیں (جیسا کہ شاہ
سلمان نے اپنے انٹرویو میں بتایا )
سرد جنگ کے دنوں میں مسلم دنیا میں جو نظریاتی جنگ چھڑی وہ اسلامی تحریکوں
اور اشتراکیوں کے درمیان تھی اسلامی تحریکیں سعودی عرب کے بہت قریب رہیں
اور اسی دور میں جماعت اسلامی اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات قائم ہوئے,
سعودی عرب نے جماعت کے بہت سے منصوبوں میں معاونت کی اور جماعت کو فیصل
ایوارڈ بھی دیا.
1979ء کے بعد جب روس افغانستان میں داخل ہو چکا تھا، امریکہ، سعودی عرب اور
اسلامی تحریکیں یک جان تھیں اس جنگ میں امریکہ بظاہر کہیں نظر نہیں آتا
لیکن اس جنگ کے نتیجے میں اشتراکیت کو شکست ہوئی اور فتح اسلام پسندوں کے
حصے میں بھی نہیں آئی بلکہ اس جنگ کا حقیقی فاتح امریکہ بنا کیونکہ اس نے
اسلامی تحریکوں کواس جنگ میں استعمال کیا تھا.
اس تمام تر واقعہ کا انکشاف حال ہی میں دیے گئے شہزادہ محمد بن سلمان کے
انٹرویو میں ہوا کہ انہوں نے سرد جنگ کے دوران مساجد اور مدارس میں سرمایہ
کاری کی, تبلیغ کے نام پر پیسہ خرچ کیا اور اس پر "وہاب ازم" کی اصطلاح
استعمال کی. (اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیخ محمد بن
عبدالوہاب نے ایک جزیرہ نما عرب میں ایک تحریک کا آغاز کیا تھا جسے انہیں
کے نام "وہابیت" سے منسوب کیا جاتا ہے اور یہی تحریک آل سعود کو اقتدار میں
لانے کا باعث بنی). آل سعود پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہزاروں مساجد تعمیر
کر کے تکفیری سوچ کی ترویج کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کر چکی ہے اور مزید کہا
کہ اب ہم "ماڈریٹ اسلام" لانا چاہتے ہیں جس کی ایک واضح مثال فیک قرآن بنام
"الفرقان الحق" ہے
آل سعود، جن کے پیروکار ان کی طرف داری کرتے نہیں تھکتے اور کہا جاتا ہے کہ
اگر وہ غلط ہوتے تو کبھی بھی اسلام کا قلعہ ان کے پاس نہ ہوتا، بیت اللہ
شریف کے دروازے کی کنجی ان کے پاس نہ ہوتی اللہ کا گھر اور مسجد نبوی کی
ذمہ داری ان کے پاس نہ ہوتی، آج اس آل سعود کا اصل چہرہ کھل کر سامنے آگیا
ہے جب انہوں نے لبرل ازم (جوکہ اسلامی اقدار کے خلاف انتہا کا شدت پسند
طبقہ ہے) کو فروغ دیا جوا خانہ، سینما گھر، ماڈرن سٹی جس میں کوئی مذہبی
عمل دخل نہیں ہو گا، خواتین کو سیکولرازم حقوق(یعنی اپنی شہوانی تسکین
کیلئے بے حیائی کی راہیں فراہم کیں)، وغیرہ جیسے کارنامے ادا کیے ہیں
امریکہ اور اسرائیل سے دوستی اور اپنے ہی مسلم ممالک سے دشمنی کھل کر سامنے
آئی ہے
ان کے تمام کارناموں سے کئی سوالات ذہن میں آتے ہیں::
1. یہ فیک اسلامی تحریکیں کس نے بنائیں؟
2. کیا اِن اسلامی تحریکوں کو مغرب کی خدمت کے لیے پیش کیا گیا؟
3. کیا اسلام کو داخلی اور خارجی قوتوں نے اقتدار کے لئے بطور ہتھیار
استعمال کیا؟
4. اور اب جوفنڈنگ ہو رہی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
5. کیا امریکہ اب بھی انہیں استعمال کر رہا ہے؟
6. غیر مسلم کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں بن سکتے تو اب دی جانے والی
فنڈنگ اور ان کے بھائی چارے کے پیچھے ان کے کون سے فوائدچھپے ہیں؟
7. اب فنڈز لینے والوں کے نظریات و خیالات و عقائد کیا ہیں؟
8. کیا یہ واقعی مسلمان ہیں جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے؟( وہ تو
غیر مسلم کو دوست نہیں رکھتے تھے)
9. کیا ان کے ذریعے مزید دہشت گرد پیدا کیے جا رہے ہیں؟
10. کیا یہ مسلمان ہیں یا پھر آستین کے سانپ؟
11. کیا اب بھی اسلام کے نام پر دہشت گردی کی جا رہی ہے؟
12. تو پھر مرنے والوں کا کیا قصور تھا؟
13. اب انہیں شہید کہا جائے یا ہلاک شدہ؟
14. وہاب ازم پھیلانے کا مطلب ہے کہ یا تو پہلے سے ہی سعودی عرب میں وہاب
ازم موجود تھی یا پھر نئی جماعت نکالی گئی کیونکہ دونوں جانب سے تعلق سعودی
حکومت سے ہی ملتا ہے. تو ان لوگوں کو کیا سکھایا گیا؟
15. آل سعود کے اقتدار میں آنے کی وجہ وہاب ازم بنی تو کیا سارے وہابی ایسے
ہی ہیں کیونکہ وہ تو آل سعود پر اندھا اعتماد کرتے ہیں؟
16. کیا آل سعود بھی لبرل ازم اور سیکولرازم کو فروغ دے رہے ہیں؟
17. اسلام اور سیکولرازم میں زمین آسمان کا فرق ہے تو کیا آل سعود اسلام کا
لبادہ اوڑھے دنیا کو سیکولرازم کی طرف لے جانا چاہتے ہیں؟
18. کیا آل سعود کے ماننے والے اب بھی ان کے ساتھ ہیں؟
19. کیا اسلام کا قلعہ اب بھی محفوظ ہاتھوں میں ہے؟
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے سوالات ہیں مگر اے کاش کہ اتر جائے ترے دل میں
مری بات....
مجھے توایسالگتاہے کہ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے یہاں بھی میر جعفر جیسے
لوگ تیار کیے گئے
اگر غیر مسلم قوتوں کو مستحکم کرنے کے لیے اسلام کو بدنام کیا جاتا رہا تو
یوں ہی کبھی اسکے ماننے والوں کو غیروں کے اشاروں پر جہادی کہا جائے گا تو
کبھی ماڈریٹ...
کبھی طالبان پیدا کیے جائیں گے تو کبھی لبرل...........
خدارا میر جعفر جیسے آستین کے سانپوں کو پہچانیں خود کو اسلام کے سانچے میں
ڈھالیں نہ کہ اسلام کے خلاف کام کرنے والے کے... جب تک اس تکفیری سوچ کو
پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک بشمول سعودی عرب بند نہ کیا گیا تو دنیا میں
کبھی بھی امن و سکون کی فضا قائم نہیں ہو گی اور مسلمان اور اسلام یونہی
دہشتگردی کا شکار رہیں گے اور دہشت گرد کہلاتے رہیں گے
|