میں اپنی زات کے طلسم کدے میں آنکھیں بند کر کے گهومتی
ہوں.یہاں ہر ایک زخم چھپا کر رکتی ہوں.اعتبار کرنا ایک گناہ ہے تو میں
گناہگار ہوں.میں اب بھی انسان کی زبان پر اعتبار کرتی ہوں.میں ہر انسان میں
صرف کوتاہیاں اور خامیاں نہیں ڈھونڈتی. مگر یہ میرے اعتبار کا خون اتنی
آسانی سے کیسے ہوجاتا ہے؟. یہ خود کو عزت دار کہلانے والے کیسے کسی دوسرے
کو ایک منٹ میں بے عزت کر دیتے ہیں؟.یہ رشتوں کا کیسا گورکھ دھندا ہے یہاں
پر چند رشتے محترم، حاکم اور باقی بے وقعت اور مغلوب. کسی کو زندان میں قید
کر کے اس کو یہ کہا جاتا ہے کہ تم تو آزاد ہو.کسی کی خودی کو لوگوں کے
پیروں میں ڈال کر کہا جاتا ہے کہ تم پر کسی کا احترام واجب نہیں ہے.
سچ بولنے پر دیوار میں زندہ درگور کردیا جاتا ہے. اسی لئے اپنی نئی کاوش
میں اس کا ذکر میں نے اس طرح سے کیا ہے. عرض کیا ہے :
اور یہ دستور رہا ہمیشہ سے حاکم وقت کا...
انارکلییاں چن دی جاتی ہیں دیواروں میں زندہ .......
ہیں ہم اس روش سے بخوبی واقف. .
درگور ہوتے ہوئے بھی قرار آیا ہے زمانوں کے بعد. .
میں اکثر اپنے فگار ہاتھ دیکھتی ہوں. انگنت کانٹے ان میں پیوست نظر آتے
ہیں.پاوں زخم زخم ہیں. کچھ دن پہلے ایک جوگی ملا وہ مجھے دیکھ کر قہقہہ مار
کر بولا :
"تو ابھی تک زندہ ہے.
تجھے ابھی لوگوں نے سنسار نہیں کیا...
میں حیرت سے گویا ہوئی
"جوگی! تجھے میرا جسم زخموں سے پاک نظر آتا ہے مگر کیا میری اسیر روح کے
زخم نظر نہیں آتے. میرا جیسا بے اماں شخص دنیا میں کون ہوگا.؟ مجھے تو میرے
اپنوں نے لوٹا ہے؟
جوگی مسکرایا اور بولا :
"جهلئے! تو ہر زخم پر ازسرِنو کیوں کرلاتی ہے. کیوں زخموں کو شان سے محبت
کا نذرانہ سمجھ کر گلے سے کیوں نہیں لگاتی. "
میں اداسی سے بولی :
"جوگی تجھے ابھی اور ریاضت کی ضرورت ہے. کیا تو نہیں جانتا کہ عظیم فاتح
جولیس سیزر ایک بہادر اور نڈر جرنیل اور فاتح تھا. کہتے ہیں کہ روم میں جب
سیزر کو مارنے کے لیے قاتلانہ حملے پر سب جمع ہوئے تو سیزر اپنے قریبی دوست
بروٹس کے وار سے مرا. کچھ روایات کے مطابق بروٹس نے ایک گلاب کا پھول اسے
مارا تو وہ "یو بروٹس ٹو "
کہہ کر مر گیا بعض کے مطابق اس پر بروٹس نے تلوار سے حملہ کیا تھا جو شیر
ہزاروں کے وار سے نہ مرا وہ اپنے کہ ایک وار سے مر گیا.
سلطان ٹیپو شہید سرنگا پٹم میں اپنوں کی غداری سے ہارا . یہی حال ہے میرا
احساس مجھے سب کے ہاتھوں مروا رہا ہے. میں برسوں رب سے دعاگو رہی "اے میرے
رب مجھے آگاہی دے دے."
مگر آگاہی سے بڑا عذاب دنیا میں کوئی نہیں ہے.
یہ کون لوگ ہیں جو مسجدیں، مندر،چرچ اور گوردوارے تو آباد رکھتے ہیں مگر
لوگوں کے دل جن میں در حقیقت رب رہتا ہے اور حقیقی مسجدیں، مندر، چرچ اور
گوردوارے تو ان دلوں میں قائم ہیں ان کو روز روندتے ہیں.
ایک انسان کی کم گوئی درحقیقت اس کی بزدلی کو چھپانے کا نقاب ہے کیونکہ وہ
سچ بول نہیں سکتا. وہ لوگوں کی نظر میں اچھا بننے کے لئے کسی سے اختلاف
رائے نہیں کرسکتا ہاں سوائے اپنے تابع لوگوں کو دبانے کے لئے. میں سمجھتی
ہوں جوگی یہ صحیح اور غلط کی تقسیم کون کسی کو سکها سکتا ہے؟ تاریخ پر نظر
ڈالوں تو ایک ہی عظیم ہستی نظر آتی ہے.
وه ہستی محبوب خدا حضرت محمد مصطفی صلی للہ علیہ وسلم کی ہے. میں اپنے آقا
سے بہت متاثر ہوں ان کے قدموں کی خاک بننا چاہتی ہوں. انہوں نے کس صبر و
تحمل سے جاہلوں کو اسلام سے آراستہ کیا. بس یہی بات مجھے دوبارہ سے ایک
حوصلہ نو دیتی ہے. میں پھر سے یہ شکستہ تن اور فگار روح لے کر کھڑی ہوجاتی
ہوں. شاید کسی دن انسان کا تعلق انسان سے جڑ جائے گا. شاید کبھی تو صبح
نوید ہوگی. شاید کبھی ہم مرد، عورت کے پهیر سے نکل کر لوگوں کو انسان
سمجھنے لگیں گے. شاید کبھی محبت، اخوت اور بھائی چارے کا سورج طلوع ہوگا.
شاید غلام کبھی آزاد ہوجائنگے. شاید کبھی فتح مکہ کی طرح عام معافی ہوگی.
اگر یہ سب ممکن نہ ہوا تو پهر تو مونا کی خواب دیکھتی آنکھیں خواب دیکھتے
دیکھتے قبر کی مٹی میں مل جائنگی.
جوگی نے ایک نعرہ ملنگانہ مارا اور
حق اللہ ہو ! حق اللہ ہو ! کہتا چل پڑا. |