کلاس میں تربیت کا اثر پڑھا رہا تھا جس میں ایک بادشاہ
اور بیربل کا ذکر تھا اسی میں پڑھنے کو ملا کہ اولاد کو کھلاؤ سونے کا
نوالہ لیکن دیکھو شیر کی نظر سے۔ اس میں بے جا لارڈ پیار کے نقصانات اور
اعتدال پسندی کے فوائد بیان کیے گئے تھے۔ بے جا لارڈ پپار اولاد کو سنوارنے
کی بجائے نافرمان، محتاج، اور بھیک مانگنے تک مجبور کر دیتا ہے اور اعتدال
پسندی میں پرورش پانے والی اولاد باادب اور کامیاب ہوجاتی ہے۔ پچھلے دنوں
ایک دعوت میں جانے کا شرف حاصل ہوا، میں ان کا مشکور جنہوں نے مجھے عزت
بخشی، دعوت میں مقررہ وقت پر پہنچا لیکن بارات لیٹ ہونے کی وجہ سے ابھی
کوئی خا ص گہما گہمی نہ تھی۔ جیسے جیسے مہمان آتے گئے اور آپس میں محو
گفتگو ہونے لگے۔ اگر خاموش تھا تو میں۔۔۔ کیونکہ یہ دعوت ایک اچھے اور
اونچے گھرانے کی تھی، سب لوگ اہل حیثیت، بزنس مین، اعلیٰ شخصیات مدعو تھیں۔
میں ایک آدمی تھا لہذا میں ان میں سے کسی کے اسٹیس کے برابر نہیں تھا، ایک
ہی شہر میں رہتے ہوئے اجنبی سا لگ رہا تھا۔ لیکن ایسی دعوت میں اگر موقع
ملے تو ضرور جانا چاہیے، اونچی سوسائٹی کے متعلق آگاہی بھی ملتی ہے۔ بارات
سے کچھ دیر پہلے ہال مہمانوں سے بھر گیا۔ میرے ساتھ بھی مہمان آکر بیٹھ گئے۔
انتظار کی گھڑیاں بہت کٹھن ہوتی ہیں، میرے ساتھ صوفے پر بیٹھنے والے بھی گپ
شپ میں مصروف ہوگئے، میں خاموشی سے ان کو دیکھتا رہا۔ سیاست کی باتیں شروع
ہوئیں، مشورے ڈسکس ہو رہے تھے۔ میں خاموشی سے یہ سب کچھ سن رہا تھا۔ کیونکہ
میرا کوئی ان میں واقف کار نہیں تھالہذا میں نے اپنے آپ کو ضبط میں ہی
رکھنے کو فوقیت دی۔ یہ ضرور محسوس ہوا کہ کوئی تو ہے جو پاکستان کے لیے
بہتر سوچتا ہے یہی میری دلچسپی تھی، میں نہیں چاہتا تھا کہ ان کے درمیان
مخل ہو کر بات کو موڑا جائے۔ جب وہ دوست باتیں کرنے کے بعد خاموش ہو گئے تو
میں نے معذرت کرتے ہوے بولنے کی اجازت چاہی۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ سر
جتنی باتیں آپ لوگوں نے کی ہیں بہت اچھی کی ہیں، کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں
آپ نے اپنے طور پر ملک کی بہتری کے لیے کیا رول ادا کیا۔ وہ پیشے کے لحاظ
سے ڈاکٹر تھے انہوں نے جواب دیا کہ میں اس وقت میڈیکل کے سٹوڈنٹس کو پڑھاتا
ہوں۔ میں میڈیکل پڑھانے کے ساتھ ساتھ ملک سے محبت اور معاشرتی تربیت کا بھی
درس دیتا ہوں۔ مجھے واقعی بہت خوشی ہوئی کوئی تو اپنا رول ادا کر رہا ہے۔
اگر اسی طرح ہم سب یہ رول ادا کرتے رہیں تو ایک وقت آئے گا کہ ہم دنیا کی
بہترین قوم بن سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ آج کی اولاد اس
کی تعلیم و تربیت عجیب رنگ اختیار کر گئی ہے۔ والدین کا ادب، اساتذہ کرام
کا ادب اب ختم ہو تا جا رہا ہے۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب ہم جس اولادکے لیے
دن رات جائز اور ناجائز کی پرواہ کیئے بغیر بیل کی طرح کام کر رہے ہیں، ان
کے لیے ہمارے پاس چند لمحات نہیں۔ وہ کہنے لگے میں ماہر نفسیات ہوں میرے
پاس میرا دوست وہ بھی پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہے، آیا کہنے لگا ڈاکٹر صاحب
میرا بیٹا آٹھویں کلاس کا سٹوڈنٹ ہے، کل میں نے دیکھا ڈرائینگ روم میں اپنے
دوستوں کے ساتھ غیر اخلاقی فلم دیکھ رہا تھا۔ میں نے اسے ڈانٹا اور ایک لگا
بھی دی۔ وہ غصے ہو کر گھر سے با ہر نکل گیا۔ رات کافی گزر گئی، باپ تھا
پریشانی اور بڑھ گئی کہ غلط کام سے روکا تو ناراض ہو گیا اور ابھی یہ چھوٹا
ہے کل اور بڑا ہو کر کیا کرے گا۔ رات کو کافی دیر سے آیا تو میں خاموش رہا۔
صبح وہ سکول گیا، سکول سے واپس گھرآ کر بیگ رکھا تو پھر چلا گیا، پھر رات
ہو گئی وہ واپس نہ آیا۔ پریشانی کے عالم میں یہاں یہاں اس کے جانے کی امید
تھی وہاں ٹیلیفون کیا مگر نہ ملا۔ بازار میں تلاش کرتے رہے لیکن کچھ حاصل
نہ ہوا۔ پھر میرے ذہن میں اپنے دوست کا خیال آیا جس کا بیٹا میرے بیٹے کا
بھی دوست تھا کہ شائد اس کے گھر نہ چلا گیا ہو۔ اس کے گھر سے پتہ کیا تو
معلوم ہوا کہ اس ڈاکٹر صاحب کا بیٹا بھی گھر سے یہ کہہ کر باہر چلا گیا کہ
میں فلاں ڈاکٹر کے گھر جارہا ہوں۔ اب پریشانی میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔
میں نے کہا ڈاکٹر صاحب میر ا بیٹا آپ کا کہہ کر گیا ہے۔ اونچی سوسائٹی کے
لوگ تھے، کس کو کیا بتائیں ماجرا کیا۔ گھر میں بیٹھ کر بڑی بے چینی سے
انتظا ر کرنے لگے۔ رات کے ڈیڑھ بجے موصوف تشریف لائے تو میں نے پوچھا بیٹا
اتنے لیٹ گھر آئے ہو خیریت تھی۔ نہ بولا میں نے ذرا ڈانٹ کر پوچھا تو بولا
فلم دیکھ کر آئے ہیں آپ نے گھر میں پابندی جو لگا دی تھی۔ اور دوستوں میں
میری Insult بھی۔ باپ خامو ش ہو گیا۔ رات گزر گئی صبح اٹھ کر میں نے پھر اس
کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اس نے جو جواب دیا میں حیران رہ گیا۔ کہنے لگا
ابا جی آپ نے کیا مجھے خرید لیا ہے کہ میں کوئی بھی کام اپنی مرضی سے نہیں
کر سکتا۔ ماہر نفسیات سے وہ ڈاکٹر اب علا ج کا پوچھ رہا ہے کیا کیاجائے۔
میں نے پھر ماہر نفسیات کی بات سن کر کہا ڈاکٹر صاحب ہم بڑے سادہ اور خود
کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے۔ ہم جس اولاد کے لیے
جائز ناجائز وقت بے وقت دن رات پیسہ کمانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں ہمارے
پاس اس اولاد کے لیے چند لمحات نہیں جو ان کے ساتھ گزار سکیں۔ ہم اپنی ذمہ
داری سے یہ کہہ کر سبکدوش ہو جاتے ہیں کہ سارا کچھ انہی کے لیے تو کرتے ہیں۔
میں نے کہا ڈاکٹر صاحب یہی تو ہمار ی بھول ہے۔ چھوٹے بچوں کو کیا پتہ ہم
کیا کر رہے ہیں۔ اسے تو آپ کی محبت بھری گود چاہیے، جس سے وہ محروم ہے اور
آج یہ مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ماہر نفسیات سے میں نے کہا سر میری سکول اور
اکیڈمی ہے۔ میرے پاس جو بھی والدین بچے کے لیے آتے ہیں میں سب سے پہلے ان
سے درخواست کرتا ہوں کہ پلیز اپنے بچوں کو خود پڑھائیں، چند لمحات دیں،ا س
سے نہ صرف اولاد کی آپ کے ساتھ محبت بڑھے گی بلکہ سکول سے ملنے والا ہوم
ورک اور کلاس ورک کے متعلق مکمل آگاہی بھی ملتی رہے گی۔ ڈاکٹر صاحب خاموش
ہو گئے اتنے میں بارات آ گئی، نکاح کے بعد کھانا شروع ہوا تو پھر اپنی اپنی
پڑ گئی۔ اس تحریر کے حوالے سے سب سے درخواست کروں گا کہ پلیز اپنی دکان،
کاروبار، اکیڈمی، دوستوں کے میل ملاپ سے چند لمحات اپنی اولاد کے لیے ضرور
بچا ئیں اور ان کو کچھ وقت روزانہ کی بنیاد پر دیں آپ دیکھیں گے انشاء اللہ
بہت بڑی تبدیل آئے گی۔ اگر اولاد کامیاب ہو گئی تو سب کچھ حاصل ہو گیا اگر
یہی اولاد بڑی ہو کر ناسور بن گئی تو اس کا کوئی علاج نہیں۔ اللہ تعالیٰ
ہمیں اپنی اولاد کے لیے وقت نکالنے اور پرورش اسلامی اصولوں کے پس منظر میں
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
|