وزیر اعظم اور نواز شریف کا خلائی مخلوقات کا ذکر ، امیر
جماعت اسلامی کا خلائی مخلوق کو اپنی کاروائیوں کا خلاء تک ہی محدود رکھنے
کا مشورہ اس چیز کا عندیہ دے رہا ہے کہ کسی نظروں سے اوجھل طاقت کا کوئی
عمل دخل ضرور ہے۔ مگر خداجانے سیاستدان ادیبوں کی طرح معرفت میں باتیں کسی
مصلحت کے پیش نظر ، خوف کے عالم میں مبتلاء یا شرم کے اظہار کے پیش نظر کر
رہے ہیں یا کوئی اور حکمت عملی پوشیدہ ہے۔
آج ہی وزیر اعظم نے کہا کہ
“Some people claim that they have received phone calls and are being
asked to change their loyalties or party affiliations. Therefore, I have
asked the parliamentary party to let me know if they get any such calls
again so as to expose these people [callers].”
اگر وزیراعظم عوام کے سامنے یوں سرعام اس طرح کی بات کرتے ہیں تو یقیناً
کوئی بات تو ہے اور اگر موجودہ سیاسی پس منظر میں سیاسی ایجادات ، غیر
متوقع تبدیلیاں ، سیاستدانوں کی پشینگوئیاں ، اداروں کی کارکردگی اور
سیاستدانوں کا اچانک وفاداریاں بدلنا ، ان تمام واقعات سے ابھرتا مجموعی
تاثر مسلم لیگ نواز کے خدشات کو تقویت بخشتا ہے۔
ان ساری باتوں سے ایک بات کی تصدیق ضرور ہوتی ہے کہ ہمارا سیاستدان کمزور
ضرور ہے۔ وہ اپنی مرضی کی سیاست کرنے سے قاصر ہے۔ گو اس میں چند سیاستدانوں
کی اپنی بیوقوفیاں بھی شامل ہیں مگر پھر بھی اس کی بے بسی تو عیاں ہے۔
اب اس پوشیدہ طاقت کی کیا مجبوری ہے کہ وہ سیاست پر اپنی چھاپ بٹھائے رکھنا
چاہتی ہے۔ یہ سیاستدانوں پر عدم اعتماد ہے یا وطن سےمحبت کا ایک مخصوص
انداز بہرحال اچھا تاثر نہیں ہے۔
جب طاقت کا محور بدلتا ہے توان پوشیدہ طاقتوں کی کاکردگی کا پول کچھ وقت
گزر جانے کے بعد کھل جاتا ہے۔ اور تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔ جب راز
کھلتا ہے تو اس وقت پشیمانی اور شرمندگی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
یہ قومی بیوقوفیاں آخر کب تک ہوتی رہیں گی۔ مورخ کی قلم کی نوک سے نکلنے
والی تحریریں جب بندوق اور نشتر کی طاقت سے بھی قوی ہو جاتی ہیں۔ جب ہمارے
بچے تاریخ کے صفحوں پر بکھری تحریروں میں ، نظریہ ضرورت ، جوڈیشل کلنگ ،
بوٹوں کی تھاپ اور اقتدار کی حوس میں ملک کے ٹکڑوں کا ذکر پڑھتے ہیں تو بے
ساختہ کہہ اٹھتے ہیں کہ ستر سال سے یہ کیا تماشہ لگا ہوا ہے۔
اس سارے تماشے کے سارے کے سارے کردار ہم خود ہی ہیں۔ ہم اس وطن عزیز سے
محبتوں کے دعوے کرنے والے ہی ہیں ۔ اس دھرتی کے لئے قربانیاں دینے والوں کے
لخت جگر ہی ہیں۔ اس آزاد اور خوشحال اسلامی مملکت کے خواب دیکھنے والے
دانشوروں کے با شعور اور اہل علم کہلانے والے سپوت ہی ہیں۔ ہاں کوئی غیر
نہیں ہم خود ہی ہیں تماشہ کرنے ، دیکھنے اور بننے والے۔
عالمی منظر نامے میں ہماری پہچان اس جاہل گنوار سی ہے جو اپنی اگلی نسل کے
لئے صرف شاہ خرچیوں کی خاطر حاصل کئے ہوئے قرضے چھوڑ کر جاتا ہے ۔ یہ قرضوں
کی غلامی والی لت نے ہمیں دنیا میں کہیں کا نہیں چھوڑا اور ہماری ذہنی
ابتری کا یہ حال ہے کہ ہم نے کبھی سنجیدگی سے اس سے چھٹکارے کا سوچا بھی
نہیں۔
ان سب مسائل کا حل قومی سوچ سے مشروط ہے جو نا پید ہے۔ سوچیں ہی غلامی کی
ظلمت سے نکال کر روشنی بخشتی ہیں۔
|