موت ایک اٹل ٹھوس اور ناقابل فرار حقیقت ہے۔ بڑے بڑے پھنے
خان لد گئے۔ وہ سمجھتے تھے‘ زندگی کی گاڑی ان ہی کے دم سے چل رہی ہے۔ وہ نہ
رہے تو زندگی کا سارا کھیل ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ بہت کچھ پاس ہوتے‘ مزید
کی ہوس تامرگ ان کے ساتھ ساتھ رہی۔ مزید کی حصولی کے لیے‘ انسانی اور
اخلاقی اقدار کو پاؤں تلے روندتے رہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ جاتے ہوئے ساتھ
کچھ بھی نہ لے جا سکیں گے۔ یہ ہی نہیں‘ قبر تک اپنے قدموں پر نہ جا سکیں گے۔
گھر والے‘ پیار و محبت کے دعوےدار اور جی حضوریے‘ یوں آنکھیں پھیر لیں گے‘
جیسے ان کا اس سے کوئی تعلق واسطہ ہی نہ رہا ہو۔ ہر کوئی جلدیوں میں ہو گا۔
منہ میں ۔۔۔ بڑا افسوس ہوا ۔۔۔ جب کہ من میں اس کے لیے رائی بھر دل چسپی‘
پیار محبت‘ ہم دردی‘ دکھ‘ صدمہ یا پھر کسی بھی سطع کا افسوس نہ ہوگا۔
جنازے کے ساتھ آئے کچھ سوچ رہے ہوں گے‘ کم بخت نے آج ہی مرنا تھا‘ اس کی
وجہ سے فلاں کام نہ ہو سکے یا التوا میں پڑ جائے گا۔ انہیں یاد تک نہ ہو
گا‘ ایک روز وہ بھی اسی طرف چارپائی پر ڈال کر قبر کی طرف لایا جائے گا۔
اپنے پرائے اسے بےیار و مددگار چھوڑ کر‘ اس کے افسوس میں پکائے گئے مصالحے
دار پکوان کی طرف لوٹ جائیں گے۔ بوٹیوں پر یوں ٹوٹ پڑیں گے‘ جیسے صدیوں کی
بھوک معدہ میں رکھتے ہؤں۔ لیگ پیس نہ ملنے پر‘ روسے بھی ہو گے۔ ان میں وہ
نہیں ہے‘ ان میں سے کسی کو یاد نہ رہے گا۔ کھا پی کر‘ گھر والوں کو بڑا ہی
افسوس ہوا کہہ کر اپنی اپنی دنیا میں کھو جائیں گے۔ وہ محض گزرا کل ہو کر
رہ جائے گا۔ وہ سننے میں آیا ہے‘ کی بسی کا باسی ہو جائے اور پھر سننے میں
آیا ہے بھی‘ فنا کی بستی میں ہمیشہ کے لیے گم ہو جائے گا۔
جب تک سانس لیتی رہی‘ گڈو کا بھی یہ ہی طور رہا۔ وہ سمجھتی تھی کہ کھیسہ پر
ہو تو عیب یا خرابی کی طرف کوئی نہیں جاتا۔ ہر کوئی ہونے کو سلام بلاتا ہے۔
یہ ہی نہیں‘ اس کے ہنر اور خوبیاں گنواتا ہے۔ ہر صاحب کھیسہ کے لیے اس کے
گھر اور من کا دروازہ تاوقت قائمی کھیسہ کھلا رہتا ہے۔
شروع شروع میں اردگرد کے لوگوں نے باتیں بھی بنائیں لیکن گڈو کی دوگز زبان
اور باحیثیت حضرات سے ہیلو ہائے ہونے کے سبب‘ کوئی کسکتا تک نہ تھا۔ یہاں
تک کہ اس کا ذاتی خاوند جیلا بٹیر بھی زبان نہ کھولتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ
اس کے ساتھ گلی کے کتے سے بھی بڑھ کر بری ہو گی۔ گڈو نے ان گنت جیبیں ویران
کیں۔ کٹیا نے کوٹھی کا روپ دھار لیا۔ کچن دیکھنے لائق کر دیا۔ لباس اور
سواری کی اپنی ہی شان ہو گئی۔ کسی کو یاد تک نہ رہا کہ گڈو کیا کرتی رہی
ہے۔ صاحب ثروت اور بڑے ناموں والے بلاتکلف اور اپنا ٹھکانہ سمجھ کر آتے
تھے۔ اب وہ بکری نہیں‘ بکریوں کی میٹ تھی۔
جیلا بٹیر اس کی زندگی میں چودھری صاحب تھا۔ لوگ اس کو سلام بلانے میں پہل
کرتے تھے۔ وہ جواب میں سر کو محض ہلکی سی جنبش دیتا تھا۔ گڈو کیا اٹھی‘ اس
کی گھر میں تو پہلے بھی عزت نہ تھی ہاں باہر بڑا وجکرا اور ٹہکا تھا۔ لوگ
اسے نہیں اس کے لباس اور سواری کو سلام بلاتے تھے۔ اب سواری تھی نہ لباس‘
فقیروں سے بدتر زندگی کر رہا تھا۔ صاحب اولاد تھا۔ سوائے چھوٹے لڑکے کے ہر
کوئی اسے جوتے کی نوک پر رکھتا تھا۔ وہ گھر میں ملازموں کی سی زندگی بسر کر
رہا تھا۔ چھوٹا لڑکا جو ابھی کنوارہ تھا‘ چوری چھپے اس کی ہلکی پھلکی خدمت
کرتا تھا۔ ورنہ دوسرے تو اسے سودا سلف لانے اور بچوں کو سکول سے لانے لے
جانے والی مشین سمجھتے تھے۔ شروع شروع میں لوگ اسے جیلا کنجر کہتے تھے اب
اس کی حالت زار دیکھ کر ترس سا کھانے لگے تھے۔ پھر کبھی کھانے کی کوئی چیز
یا ایک آدھ سگریٹ بھی دینے لگے۔
اگرچہ یہ کرنی کا بھگتان تھا لیکن ترس کھانا بھی صاحب دل کی فطرت میں داخل
ہے۔ میں بھی اکثر سوچتا کہ یہ برائی سے کنارہ کش ہو جاتا تو آج اس کڑی سزا
سے بچ جاتا۔ الگ ہو جانا اس کے بس میں تھا۔ اس نے کیوں برائی کا ساتھ دیا۔
برائی کا انجام برا ہی ٹھہرا ہے۔
گڈو کے آخری دن بھی سسکیوں میں گزرے تھے۔ اس کو کیا بیماری لاحق تھی مرتے
دم تک تشخیص میں نہ آ سکی تھی۔ بکریوں کا آج بھی وہاں آنا جانا لگا رہتا
ہے۔ اب یہ کام مرحومہ کی بڑی بیٹی بڑی خوبی سے انجام دے رہی ہے۔
مجھے بھی جیلے کی اس حالت زار پر ترس آتا۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس کا چھوٹا
لڑکا باپ سے ہم دردی کا جذبہ رکھتا ہے۔ ایک دن وہ مجھے اکیلے مل گیا۔ میں
نے اسے بلا لیا اور باپ کا خیال رکھنے کو کہا۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
مجھے یقین ہو گیا کہ یہ باپ سے ہم دردی ہی نہیں‘ محبت بھی رکھتا ہے۔ میں نے
سوچا کیوں نہ اسے ان کے ماحول کے مطابق بات سمجھانے کا چارہ کروں۔
میں نے کہا: تمہارا باپ اکیلے زندگی کر رہا ہے اس کے لیے کچھ کرو۔
اس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا: بتائیے میں ان کے لیے کیا
کروں۔ بس میں ہوا تو ضرور کروں گا۔
میں نے کہا: تمہارا باپ بوڑھا ہو گیا ہے اب وہ کسی قابل نہیں رہا۔ اب تمہیں
کچھ کرنا پڑے گا۔
اس نے کہا: یہ ہی تو پوچھ رہا ہوں کیا کروں‘ کرنا کیا ہے۔
کوئی شریف اور اچھی سی لڑکی پھنساؤ اور باپ کے ساتھ سیٹ کرکے اس کا نکاح
کروا دو۔
یہ سنتے ہی‘ اس کا چہرا لال پیلا ہو گیا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ میرے منہ
پر بڑا ہی کرارا تھپڑ جڑ دیا اور چلا گیا۔ اب جب بھی مجھے دیکھتا ہے‘ گھور
کر دیکھتا ہے۔ میں تھپڑ تو تقریبا بھول گیا ہوں‘ ہاں یہ سوچ مجھے گھیراؤ
کیے رکھتی ہے کہ
اگر یہ اس قماش کا نہیں تو ان سب سے الگ کیوں نہیں ہو جاتا۔
ممکن ہے اپنی محبوبہ دینے کا مشورہ اسے زہر لگا ہو۔ ایسا بھی ممکن ہے‘ وہاں
رکنے میں اس کی کوئی مجبوری ہو اور یہ ہی صورت حال اس کے باپ کے ساتھ بھی
رہی ہو۔ اس بات کو کئی ماہ ہو چلے ہیں‘ لیکن میں آج تک پہلے روز کی طرح صفر
پر کھڑا ہوں۔ |