سلسہ وار ناول۔۔۔رازی قسط نمبر ٢


یہ ناول آج کے عالمی تناظر میں لکھا گیا ہے۔ کیسے کیسے حیلوں لالچ بہانوں اور سازشوں سے مسلمان کو مسلمان کے خلاف لڑایا جا رہا ہے اور دجال کے آنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔اس ناول کے تمام کردار اور واقعات تخیلاتی ہیں۔ کسی کردار کی کسی سے مماثلت اتفاقیہ ہو گی۔

serpentineیہودیوں نے سوویت یونین توڑنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اور ایسا کرنے والی اُن کی تنظیم
ہی تھی ۔

یہودیوں کی روس سے کیا دشمنی تھی محض یہ کہ روس عرب ممالک میں چند کے ساتھ بہت قریبی کاروباری تعلق رکھتا تھا اور انہیں اسلحہ فروخت کرتا تھا۔ اِن عرب ممالک کو اسرائیل اپنا دشمن سمجھتا تھا اور دشمن کا دوست بھی دشمن یونین کی بنیادیں اشتراکی معاشیات پر تھیں اور یہی کمزوری بن کے رہ گئی ۔ ادِھر روس کو افغانستان میں الجھا دیا گیا تاکہ اس کی معشیت کمزور ہو جائے ایسا ہی ہوا اور سوویت یونین کے ٹکڑے ہو گئے ۔ ان کی منصوبہ بندی محض یہیں تک محدود نہ تھی بلکہ وہ تو عالمی حکمرانی کی منصوبہ بندی کر چکے تھے۔
اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اسرائیل کی تنظیم serpentine سر گرم عمل تھی۔ اور بہت تیزی سے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی تھی۔ ایس ون نے serpentine کے سربراہوں کا اجلاس طلب کیا مٹینگ کا ایجنڈا پیش کیا۔کہ رازی کسی بلا کی طرح نازل ہوئی۔
اس کا سدِباب کیسے ممکن ہے ؟
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
’’دی سام ‘‘ کے دفاتر سے تمام میڈیا کے لئے پالیسی آرڈرز ایشو کئے گئے کہ ایسے طریقے سے وہ اسلام کو عیسائیت کا بلکہ انسانیت کا دشمن بنا کر پیش کریں کہ پورا عالم انگشت بدنداں رہ جائے ۔ مگر یہ کام ایسے نفیس طریقے سے کیا جائے کہ بظاہر اس میں کوئی د شمنی نہ ہو۔
یہ تنظیم ’’دی سام‘‘ ہی دراصل سپرسٹیٹ کی مختار کل تھی ۔ اس کی پالیسوں کوعملی جامہ پہنانا حکومت کا اور صدر کا کام تھا۔ کہنے کو تو صدر بہت ہی اختیارات کا مالک ہو تا ہے مگر اس تنظیم کے سامنے وہ محض ربڑ سٹیمپ ہی تھا۔
’’دی سام‘‘ کا سربراہ سپرمین کہلاتا تھا۔ اور ماتحت اپنے اپنے شعبے کے نام سے پکارے جاتے تھے ۔ اصلی نام کسی کو معلوم نہین ہوتا تھا۔ سپرمین کا ایس ون سے مسلسل رابطہ تھا اور موجودہ احکامات بھی ایس ون کے کہنے پر ہی جاری ہوئے تھے ۔ جس طرح ایس ون اپنے ملک کا بے تاج بادشاہ تھا اسی طرح سپرمین بھی آل ان آل تھادونوں کی قدر مشترک یہ تھی کہ دونوں دنیا پر راج کرنے کے خواب دیکھتے تھے۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
حضرت صاحب صاحب کشف و کمال تھے ۔ اسلام کی خدمت کرنا ہی اُن کی زندگی کا مقصد تھا۔ مسلمانوں کے دگر گوں حالات انہیں قطعی گوارا نہ تھے ۔ وہ اُن لوگوں میں سے نہیں تھے جہنیں اگر کمال نصیب ہوتا ہے تو وہ گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں بلکہ وہ تو میدان عمل کے آدمی تھے ۔ وہ محض دعا ہی نہیں بلکہ دوا بھی کرنا چاہتے تھے ۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ مظلوم مسلمانوں کی ہر طرح سے مدد کرنے کے لئے ایک ٹرسٹ قائم کیا ۔ اُن کے دل میں اس سے بھی زیادہ کر گزرنے کا جذبہ تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی میراث دوبارہ حاصل کریں۔ اُن کی بین الاقوامی حالات پر گہری نظر تھی۔ وہ دیکھ رہے کہ کس طرح مغربی اور صہیونی میڈیا مسلمانوں کو بدنام کر رہا ہے۔ اس کا جواب دینے کے لئے انہوں نے بھی ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک ذیلی ٹرسٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اور عالمی سطح پر مسلمانوں کی پوزیشن واضح کرنے کے لئے اور بالخصوص مسلمانوں تک حقائق پہنچانے کیلئے ملٹی میڈیا قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں وہ اپنی شوریٰ سے مکمل گفت و شنید کر کے معاملات طے کر چکے تھے ۔ اب اس کے قیام کا مرحلہ باقی تھا ۔ اس سلسلے میں انہوں نے قومی اخبارات میں اشتہار دیا کہ ہمیں اپنے میڈیا کے لئے افرادی قوت درکار ہے۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
ریاض علوی جو کہ تمام میڈیا میں کام کرنے کے بعد اُن سے متنفر ہو چکا تھااور اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی باقی زندگی اُن سے دور ہی رہ گا کیونکہ جس اخبار کا وہ ایڈیٹر بنا تھا اس کا مالک بلیک میلر تھا۔ ٹی وی میں آیا تو یہاں پر اور ہی صورتحال تھی۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کیا جا رہا تھا۔ ریڈیو کی بھی ایسی ہی پوزیشن نکلی ۔ وہ تو اپنے ضمیر کے مطابق کام کرنا چاہتا تھامگر ہر جگہ سچ بولنے اور لکھنے کی وجہ اُسے برداشت نہ کیا گیا۔
اس نے جب حضرت صاحب کے ٹرسٹ کے میڈیا کا اشتہار پڑھا تو جیسے اُس کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہو ا۔ اور وہ اسی وقت اپنا سی وی تیار کر نے بیٹھ گیا ۔ اس کے دل نے گواہی دی کی یہ میڈیا ہی مسلمانوں کا صحیح ترجمان ہو گا اور اس میں رہ کر کام کرنا اس کے لئے موزوں ہو گا۔
اس نے اپنے کاغذات اٹھائے اور دئیے گئے پتہ پر پہنچ گیا۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
نسوار خان نے رازی نام کے جتنے بھی پتے تھے وہ سب شیرون کو
دئیے تھے۔ شیرون نے وہ پتے اپنے دوست ملک کے سفارتے خانے کو بھیجے کیونکہ اُن کا اپنا سفارت خانہ نہ تھا۔ تحقیق کروائی تو ان رازیوں میں سے کوئی بھی اُن کا مطلوبہ رازی نہ تھا۔
ہیلو نسوار خان
یس شیر ون ۔ ہم بولتا ہے ۔
تم نے جو ایڈریس دئیے یہ سارے تو پہلے بھی ہمارے پاس ہیں ۔ میں تم سے کہا تھا کہ ایسا رازی بتاؤ جو ہماری کاز کے خلاف کام کر رہا ہو ۔ تم اس سلسلے میں ناکام ہو گئے ہو اور تم نے مجھے بھی مروا دیا ہے۔
میرے پاس اور بھی پتہ ہے ۔ وہ بھی بھیجے گا میرا خیال ہے یہی رازی تمارے کام کا ہے ۔
اچھا وہ بھی دیکھ لیتے ہیں مگر ایسا نہ ہو کہ تمہارا معاوضہ راستے میں رک جائے ۔
اگر اطلاع غلط ہو تو ہم معاوضہ نہیں لے گا۔
*۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔*
ایک فلسطینی نے اپنی تیاری مکمل کی ۔ اور اسرائیلی چوکی کی جانب روانہ ہو گیا۔ اسرائیلی فوجی اسے روکنے کی کوشش کرتے رہے مگر وہ بارود سے بھری کار لے کر ان کی چوکی میں گھُس گیا ۔ اُس نے 10اسرائیلی فوجی اُڑا دئیے اور خود جام شہادت نوش کر لیا۔ ابوصالح ایاز نے یہ خبر پڑھی اور نمبر 10جس کا اصل نام سید ون تھا اس کے لئے دعا کی اور اپنی نئی منصوبہ بندی میں مصروف ہو گیا۔
 

akramsaqib
About the Author: akramsaqib Read More Articles by akramsaqib: 76 Articles with 65562 views I am a poet,writer and dramatist. In search of a channel which could bear me... View More